محمد
ابوا لخیر, شاذی--
آپ نے مرغ فروش قصاب کی دوکان پر کھڑے ہو
کر یہ منظر ضرور دیکھا ہوگا کہ پنجرے میں بند مرغیاں باری باری اپنے کٹنے کا انتظار
کرتی ہیں۔ جیسے ہی دوکان دار مرغی کو پکڑنے کے لئے ہاتھ ڈالتا ہے ، ہر مرغی اپنی جان
بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ جب ایک مرغی پکڑی جاتی ہے تو وہ مدد کے لئے چیختی پھڑ پھڑاتی
ہے مگر دوسری مرغیاں اپنے بچ جانے پر خوش ہوتی ہیں، حالانکہ یہ بہر حال طے ہے کہ انکا
نمبر بھی آنا ہے۔
ٹھیک یہی حال موجودہ دور کے مسلم ممالک
کا ہے۔ وہ باری باری اپنی تباہی و بربادی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے کا
نمبر آتا ہے۔ جو مسلم ملک جب تک بچا رہتا ہے اس وقت تک خوشیاں مناتا ہے۔ لیکن بالآخر
اس کا نمبر بھی آجاتا ہے۔ ان ممالک کو اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ سب مل بیٹھ کر مستقبل
کی منصوبہ بندی کریں اور دشمنوں کی سازشوں کے جال میں خود کو پھنسنے سے بچانے کی تد
بیر کریں۔
پتہ نہیں مسلم ممالک اور وہاں کے باشندوں
پر کس گناہ کا عذاب اللہ تعالیٰ نے مسلط فرمایا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ
ان میں کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ حکمراں حق پر ہے یا اس کا مخالف گروہ۔ صرف مقتول
مسلمان نہیں ہوتے بلکہ قاتل بھی مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ ہم جس امریکہ کو دشمن اسلام مانتے
ہیں وہ کبھی حکمراں کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی اس کے مخالف گروہ کے ساتھ۔اگر امریکہ کو
ہم دشمن مانتے ہیں تو پھر اسی سے تائید کیوں حاصل کرتے ہیں؟ اگر ہم مان لیں کہ یہ اس
کی سازش ہے تو آخر ہماری عقل اوردانائی کہاں گم ہو جاتی ہے ؟آدمی تجربے سے سیکھتا ہے۔
اگر ایک مسلم ملک میں امریکہ اپنی سازش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دوسرے مسلم ممالک اس
سے سبق کیوں نہیں سیکھتے اور خود بھی اس کی سازش کا کیوں شکار ہو جاتے ہیں؟میں مانتا
ہوں کہ امریکہ یا اس کے حلیف ممالک بے شک مسلم ممالک اور اسلام کی دشمن ہیں، مگر اس
سے کہیں زیادہ اس کے ذمہ دار خود مسلمان اور مسلم ممالک ہیں۔
حالیہ مثال شام کی ہے۔ بے شک بشار الاسد
ایک ظالم و جابر حکم راں ہے ۔لاکھوں معصوم عوام اس کی خود سری کی نذر ہو چکے ہیں۔ امریکہ
اس ظالم حکومت کو ختم کرنے کے لئے اس پر حملہ کرنے کو تیارہے مگر دوسری طرف ایران اس
ظالم حکومت کا ساتھ دے رہا ہے اور اس کا کھلم کھلا دفاع کررہا ہے۔اب آپ مجھے بتائیں
کہ کیا آپ ایران کے ساتھ ہوں گے یا امریکہ کے ساتھ۔ایک طرف سعودی عرب جنرل عبدالفتاح
السیسی کی حمایت کا اعلان کرتا ہے تو دوسری طرف ایران بشارالاسد کی پشت پر ہے۔
ہم لوگ مصر کی موجودہ صورتحال سے بہ خوبی واقف ہیں ۔اگر یہ بات صحیح ہے
اور یقینا صحیح ہے کہ مصر میں اخوان حق پر ہیں اور اس کے مخالف باطل پر، تو پھر عالم
عرب کیوں باطل کی کھل کر حمایت کر رہا ہے اور ان کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے ۔ خود
ہندوستان میں مسلم رہنما وں اور مسلم تنظیموں نے کھل کر باطل کی مخالفت اور اخوان کی
حمایت کیوں نہیں کی؟۔ اس کے پیچھے کون سی مصلحت ہے جو انھیں حق کو حق اور باطل کو باطل
کہنے سے روک رہی ہے۔
یہی حا ل عراق،ایران،افغانستان،تیونس،لیبیا،الجزائر،مراکش،سوڈان،فلسطین
اور دیگر مسلم ممالک کا ہے - عراق میں کون حق پر تھا اور کون باطل پر؟ کیا صدام حق
پر تھے یا ان کے مخالف ؟پاکستان میں آئے دن مسجدوں کے اندر اور باہر گولیاں چلتی ہیں،
دھماکے ہوتے ہیں اور قتل عام ہوتا ہے ۔ گولیاں چلانے والا یا دھماکہ کرنے والا کوئی
اور نہیں، ہمارا آپ کا بھائی ہی ہوتا ہے۔ آپ کہیں گے کہ وہ امریکہ کا آدمی ہوتا ہے
تو وہ بکنے والا کون ہے؟وہ کون ہے جو چند پیسوں اورحقیر مادی مفاد کے خاطر بک جاتا
ہے؟بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ حکومت کے ذریعہ جو ظلم و ستم مسلمانوں پر ہو رہا ہے، کیا
وہ بھی امریکہ کی سازش کا نتیجہ ہے؟ اگر ہے تو ہم مسلمانوں کی بصیرت کہاں کھو گئی؟
اللہ کے رسول ﷺ نے تمام اہل ایمان کو ایک جسم کی مانند
قرار دیا ہے کہ اگراس کے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا
ہے۔آخر یہ کیسے مومن ہیں جو دوسرے مومن بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ بھائی کو بھائی
کا قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا، عورتوں ،بوڑھوں یہاں تک کہ معصوم بچوں تک
پر رحم نہیں آتا، چاہے وہ عراق میں ہویا افغانستان میں۔ بنگلہ دیش میں ہو یاپاکستان
میں ۔ شام میںہو یا مصر میں ۔آپ کہیں گے کہ یہ امریکہ کی سازش ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ
کہہ کر آپ اپنی کم زوری چھپاتے اوردشمنان اسلام کا حوصلہ بلند کرتے ہیں۔
جو چیز آپ کی جاگیر تھی، یعنی لوگوں کے
دلوں پر، ملک پر اور دنیا پر کیسے حکومت کی جائے، یہ دوسروں نے آپ سے سیکھا تھا، مگر
آج حال یہ ہے کہ آپ کو یہ چیزدوسروں سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں بینی کا جوہر اپنے
اندر پیدا کرنا ہوگا۔دشمنانِ اسلام تو اپنی چالیں چلیں گے ہی، مگر آپ کیوں ان سازشوں
کی توڑ کی صلاحیت سے عاری ہیں؟کیوں آپ تھوڑے سے وقتی مفاد کے لئے اپنے ضمیر اور اپنے
آپ کو بیچ ڈالتے ہیں؟
اکثر مسلم ممالک میں ایک خلفشار سا مچا
ہو ا ہے ،ملت انتشار کا شکارہے، اس کے درمیان چین ،امن، استحکام،پائیداری، اعتدال جیسی
کوئی چیز نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم دنیا قیادت کے بحران میں مبتلا ہے،کہیں اتحاد
و اتفاق نظر نہیں آتا۔ آخر اس ملت اور ان ممالک کو کیا ہو گیا ہے ۔جب ان کا ایک اللہ،
ایک قرآن ، ایک رسول اور ایک دین ہے تو پھر کیوں انھوں نے اپنے آپ کو بانٹ رکھا ہے۔
جب تک آپ گروہوں ، مسلکوں، فرقوں میں بٹے
رہیںگے آپ کا حشر اور انجام یہی ہوگا جو عراق،افغانستان،فلسطین،پاکستان، مصر ، شام
اور دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں ہو رہا ہے۔ آپ کو انتشار و اختلاف ختم کر کے اتفاق
و اتحاد پیدا کرنا ہوگا، ورنہ محکومی اور زوال آپ کا مقدر بن جائے گی۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبین
ورنہ اس بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔