خصوصی انٹر ویو : اشرف علی بستوی،
بھارت میں
ہو نے والے بم دھماکوں اور فرقہ وارانہ
تصادم کے سلسلہ میں اب کوئی بھی دیانتدار مبصر یہ نہیں کہہ سکتاکہ اِن واقعات کا ملک
کی انتخابی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ذات برادری اور علاقائی جذبات پر مبنی سیاست سے جہاں علاقائی سیاسی پارٹیاں فائدہ
اٹھاتی ہیں وہیں دھماکوں اور فسادات سے تشدد کی سیاست میں یقین رکھنے والی ایک ملک
گیر سیاسی پارٹی کوفائدہ پہنچتا ہے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ بم دھماکے اور تشدد کے واقعات منصوبہ بند طریقے سے
کرائے جاتے ہیں اور پھر اُن کی بنیاد پر شہریوں کے ایک مخصوص طبقے کو گھیرنے اور اس
کے خلاف ملک میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھارت کی بر سر اقتدار جماعت
کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں 2004 میں ہی 'انسداد
فرقہ وارانہ تشدد بل' لانے کی بات کی تھی لیکن ساڑھے نو برس گزرجانے کے بعد
بھی یہ بل بھارتی پارلیامینٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا ہے یہ بل 2011 میں ہی درافٹ
ہو چکا ہے اور ترمیمات کے مراحل سے گزرنے کے بعد اب تک قانون کی شکل اختیار نہیں
کر سکا ہے ۔ اس پورے معاملے پرنئی دہلی میں
اشرف علی بستوی نے 'بم دھماکوں اور فسادات
کی سیاست کیا کہتی ہے' کے عنوا ن پر یہ
خاص بات چیت گانگریس پارٹی کے قومی ترجمان " م۔ افضل
" سے کی ہے ۔
سوال: آپ بر سر اقتدار آل انڈیا کانگریس پارٹی
کے ترجمان ہیں ، براہ کرم یہ بتائیں کہ بم دھماکوں اور فسادات کی سیاست نے
ہندوستانی مسلمانوں کو کس درجہ نقصان پہونچایا ہے، مرکز میں آپکی حکومت ہے شدید مطالبے کے باوجود ابھی تک انسداد فرقہ
وارانہ فسادات بل پاس کرنے سے حکومت گریز کیوں کر رہی ہے ؟
جواب: بم دھماکوں اور فسادات کا براہ راست نشانہ مسلمان
ہی بنتے ہیں، مسلمانوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اور انتظامیہ کار ویہ بھی مسلمانوں
کے خلاف ہوتا ہے۔ اسی لیے کانگریس انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل لانے کے لیے کوشش کررہی
ہے، تمام تر مخالفتوں کے باوجود ہم یہ بل ضرور لائیں گے۔
سوال: اپوزیشن جماعتوں کے اعتراض پر آپ
کیا کہیں گے ،اہم اپوزیشن بی جے پی تو اسے
اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کی ناز برداری سے تعبیر کر رہی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ
بل ہندو مخالف ہے .
جواب: اپوزیشن کا اعتراض بے بنیاد ہے ، وہ ملک
کی عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ،قابل غور بات یہ ہے کہ یہ بل صرف مسلمانوں کو
ہی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ملک میں بسنے والی سبھی طرح کی اقلیتوں جس میں مذہبی،
لسانی، علاقائی اور آدی باسی طبقے آتے ہیں سب کو تحفظ فراہم کرانے کی ضمانت دیتا
ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بی جے پی اس کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے۔
اس وقت ملک میں کچھ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی مصنوعی ہمدردی کا دم بھرتی نظرآرہی
ہیں، یہ لوگ مسلمانوں اور کسان دونوں کو الگ الگ کرکے بات کرتے ہیں میں ان سے یہ پوچھنا
چاہتاہوں کہ کیا ملک کا مسلمان کسان نہیں ہوتا۔
سوال: حالیہ پانچ ریاستوں میں کانگریس
کو شکست سے دوچار ہو ناپرا ہے ، جبکہ بی جے پی کو زبر دست کا میابی ملی ہے ،اور اب
جبکہ 2014 کے عام انتخابات میں چھ ماہ سے بھی کم وقت رہ گئے ہیں نریندر مودی کی
لہر کو روکنے کے لیے کانگریس کیا حکمت عملی اختیار کرے گی ؟
جواب: کانگریس
دعوے سے زیادہ کام کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ کچھ لوگ بی جے پی کا خوف دلاکر مسلمانوں
کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ملک کی سیاست پر نریندر مودی کا کوئی اثر نہیں
پڑا ہے۔ حالیہ پانچ ریاستی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی جن ریاستوں میں کامیاب ہوئی
ہے وہاں کی مقامی قیادت کی وجہ سے ہے۔ اگر نریندر مودی کی لہر ہوتی تو دہلی میں بی
جے پی کے ووٹ کم نہ ہوئے ہوتے یہاں ساڑھے تین فیصد ووٹ کم ہوئے ہیں۔
سوال: بی جے پی کی ریاستی اسمبلی
انتخابات میں کامیابی کی وجہ کیا رہی ؟
جواب : مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان نے عام
آدمی کے مسائل پر توجہ مرکوز کی جس کا انہیں فائدہ ہوا۔ چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ نے
مرکزی اسکیموں کو اپنے خاطے میں ڈال کر عوام کو گمراہ کیا، راجستھان میں وجے راجے سندھیا
نے پدیاترا نکال کر لوگوںتک پہنچیں۔ سشما سوراج نے بی جے پی کی جیت کو پارٹی کی کامیابی
قرار دیتے ہوئے مودی کا نام نہیں لیا۔
سوال: آپ نے دیکھا کہ دارالحکومت دہلی
کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک سال
قبل وجود میں انے والی پارٹی 'عام آدمی پارٹی' نے کانگریس کے پندرہ سالہ دور حکومت
کو ختم کر دیا ، یہ کانگریس سے عوام کی ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے ؟یہاں تک کہ
دہلی کے مسلم ووٹروں نے بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا ؟
جواب:
عام آدمی پارٹی( AAP) نے مسلمانوں کو نہیں جوڑا ہے، دہلی میں کانگریس کے پانچ امیدوار مسلم
اکثریتی حلقوں سے ہی جیت کر آئے ہیں، مسلمان ہمیشہ ٹیک ٹیکل ووٹنگ کرتے ہیں، مسلمان
ہمیشہ ان قوتوں کاساتھ دیتے ہیں جو فرقہ پرستوں کو شکست دے سکیں۔ قابل اطمینان بات
یہ ہےکہ ملک کی اکثریتی آبادی کا غالب حصہ سیکولرزم میں یقین رکھتا ہے، اس لیے مودی
جیسے لوگ یہاں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
سوال:آخری سوال حالیہ شکست سے سبق لینے
کے بعد کا نگریس اب 2014 میں کس نام پو
لوگوں سے ووٹ حاصل کے گی ؟
کانگریس اپنی دس سالہ کارکردگی کو عوام تک نہیں لے
جاسکی اس لیے مخالف سیاسی جماعتیں ہمارے خلاف ماحول بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ جب کہ
کانگریس نے حقیقی معنوں میں مستقل اسکیموں کے نفاذ کے لیے کام کیا، آر ٹی آئی، منریگا،
تعلیم کاحق، غذائی تحفظ، تحویل آراضی یہ چند ایسے قوانین ہیں جسے کانگریس نے عوام
کو دیا، ہم نے مندر وہیں بنائیں گے تاریخ نہیں بتائیں گے جیسے نعرے نہیں دیے۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔