ہندوستان میں رائج الوقت سیاست سےالگ ہٹ کر ایک نئی سیاسی راہ اختیار کرنے
والی عام آد می پارٹی کے نیشنل کنوینر اروند کیجری وال دہلی کے اگلے وزیر
اعلیٰ ہوں گے۔ اور28 کو دہلی کے تاریخی رام لیا میدان میں
حلف لیں گے ۔ محض 45برس کی عمرمیں وزیر اعلیٰ بننے والے کیجری وال دہلی کےسب سے کم عمر
کے وزیر اعلیٰ ہوں
گے۔ کیجری وال کا یہ سفر کافی دلچسپ اور چیلنجوں سے پر رہا ہے۔ انتہائی
مضبوط عزائم اور جہد مسلسل نے ان کی زندگی میں اب تک کے سفر میں انہیں ہر قدم پر
کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے، پہلے انجینئر،پھر بیو رو کریٹ اور سماجی کارکن اور اب
وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری نبھانے کی تیاری ہے۔
کیجری وال کی پیدائش 16؍اگست 1968 کو ہر یانہ کے حصار میں گو بندرام کیجری وال اور گیتا دیوی کے یہاں ہوئی ۔
آئی آئی ٹی کھڑگ پور سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد1989میں ٹا ٹا اسٹیل سے کیریر کی شروعات کی لیکن یہ نوکری راس نہ آئی اور بہت
جلد ہی1992 میں ٹا ٹا اسٹیل کو
الوداع کہہ دیا۔ اس کے بعد کچھ دنوں کے لیے کولکاتہ کے رام کرشنا آشرم اور نہرو
یوا کیندر کا رخ کیا یہاں کچھ وقت گزارنےکے بعد انہوں نےانڈین سول سروسیز میں
آنےکی ٹھانی اور 1995میں سول سروس کے
امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد انڈین ریونیو سروسیز IRS سے منسلک ہوگئے لیکن بہت جلد ہی یہاں بھی کوفت محسوس کرنے لگے اور ایک بار
پھر ارادہ بدلا اوراعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سن2000میں دو سال کی بلا
اجرت تعطیل لے کر اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھایا مطلوبہ تعلیم کی تکمیل کے بعد2003 ءمیں دوبارہ سروس سے وابستہ ہوگئے۔
ابھی تین برس ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے جوائنٹ انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے پر
پہنچ کر2006میں سروس کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔ استعفے کے
بعد انہیں کافی مشکلات پیش آئیں، ان پر جرمانہ بھی عاید کیا گیا، جو انہوں نے
اپنے ایک دوست سے قرض لے کر ادا کیا۔ سروس کی ٹریننگ کے دوران ہی ازدواجی زندگی
میں قدم رکھ دیااور ان اپنی ہی ہم سبق ساتھی مس سنیتا سے شادی ہو گئی، فیملی میں
ایک بیٹااور ایک بیٹی ہے۔
ہمیشہ عام آدمی کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدو جہد کر نے والے کیجری وال
نے ملک میں اطلاعات کا حق RTI قانون نافذ کرانے میں اہم کردار ادا
کیا ہے۔ نومبر 2011میں انا ہزارے کی تحریک سے وابستہ ہوکر جن لوک پال کا مسودہ تیار کرنے میں
بھی ان کا اہم رول رہا ہے۔ لیکن لوک پال بل لانے کے تعلق سے مرکزی سرکارکے ڈھل مل
رویےاور طفل تسلیوں سے تنگ آکر کیجری وال نے آخر کار سرگرم سیاست میں قدم رکھنے
کا فیصلہ کر لیا، یہیں سے انا ہزارے اور کیجری وال کی راہیں جدا ہو گئیں لیکن منزل
دونوں کی ایک ہی رہی بدعنوانی کو جڑ سے اکھا ڑ پھنکنا۔ فرق صرف یہ رہا کہ انا
ہزارے کا خیال تھا کہ صرف عوامی تحریک ہی سرکار پر دباو بنانے کا واحد طریقہ ہے،
لہذا ہمیں سیاست کی کالی کوٹھری میں نہیں داخل ہو نا چاہیے۔
جبکہ کیجری وال اب اپنے ماضی کے تجربات
کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک ہم قانون سازی کی طاقت حاصل نہیں
کرتے ہمیں مطلوبہ تبدیلی ہر گز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس اختلاف کے بعد کیجری وال نے
انا تحریک سے نومبر 2012 میں الگ ہو کر عام
آدمی پارٹی تشکیل دی، اس طرح دہلی میں 26؍نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کے قیام کا ا علان ہوا اور اپنے ساتھیوں منیش سسودیا، سنجے
سنگھ، گوپال رائے کماروشواس، ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کے ساتھ مل کر
تحریک کو نئی شکل دی۔
کیجری وال نے دہلی کو اپنی سیاسی تحریک کا مرکزاور محور بنایا اورپوری
توانائی کے ساتھ میدان میں اتر گئے۔ عوام کے بنیادی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے
کیجری وال نے سب سے پہلے بجلی کمپنیوں کی من مانی کے خلاف مورچہ کھولا، اس تحریک
میں انہیں بڑے پیمانے پرعوامی حمایت حاصل ہوئی اور ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ
ہوتا گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے عوامی مسائل کی طویل فہرست تیار کرکے برسر اقتدار
کانگریس کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔
زندگی کے سفر میں چیلنجوں کو
دعوت دینا ان کی کا میابی کا زینہ رہا ہے اس لیے اس سیاسی کیریر میں بھی چیلنجوں کو
قبول کیا۔ ان کے ایک دلچسپ مگر انتہائی حیران کن فیصلے نے ہر خاص و عام کو اس وقت
حیرت میں ڈال دیا جب دہلی اسمبلی انتخابات قریب آتے ہی کیجری وال نے دہلی کی وزیر
اعلیٰ شیلا دیکشت کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، بعض سیاسی مبصرین نے اسے
کیجری وال کی سیاسی خود کشی والا فیصلہ قرار دیا تو بعض نے اروند کو انتہائی
مغرورشخص تک کہہ دیا۔ لیکن8؍دسمبر کو رائے شماری کے نتا ئج
دیکھ کر سبھی ششدررہ گئے جب، انہوں نے پندرہ برس تک دہلی کی وزیر اعلیٰ رہنے والی
سینئر لیڈرشیلا د یکشت کو 25ہزار سے بھی زائدووٹوں سے شکست دے دی۔ ان کی پارٹی کو 70میں سے 28سیٹیں حاصل ہوئیں۔ اور 22 سیٹوں
پر ان کے امیدوار دوسری پو زیشن پر رہے۔
انہیں سال 2006میں ان کی سماجی
خدمات کے اعتراف میں ریمن میگسیس ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے، انہوں نے
'’سوراج‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو 2012 میں شائع ہو ئی تھی۔
اب وزیر اعلیٰ بن کر دہلی کی نئی سیاسی تاریخ لکھنے کی تیاری میں ہیں۔ ان کی آمد
نے دہلی میں جہاں ایک طرف کانگریس کی سیاسی زمین پر جھاڑو پھیرنے کا کام کیا وہیں
دوسری جانب بی جے پی کے لئے بھی اقتدار تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ پیدا کر دی۔
چنانچہ 42سیٹوں والی کانگریس
کو آٹھ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا، اور بی جے پی کو سب سے زیادہ 32سیٹیں حاصل ہوئیں۔ کیجری وال کا یہ
سیاسی سفرکتنا کامیاب ہو گا، ان کامکمل سوراج کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہوگا۔
یہ تو آنے والے کچھ دنوں میں طے ہو جائے گا، اس سے قطع نظر کیجری وال کی زندگی کے
سفر نامے کا اگر تجزیہ کریں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ کیجری وال کے لیے اپنی
منزل تک پہنچنا ہمیشہ مشن رہا، وہ ہمیشہ اسی جذبے سے کام کرتے ہیں۔ انہیں اس کی
بھی پروا نہیں کہ آج وہ جو کچھ ہیں اگر کل نہیں رہے تو کیا ہو گا، اگر وہ اس
سیاسی اکھاڑے میںکانگریس اور بی جے پی کی شطرنجی چالوں سےناکام بنا دیے گئے تو بھی
انہیں کوئی ملال نہیں ہو گا کیوں کہ اپنی زندگی میں ایسے کئی بڑے عہدوں کو چھوڑنے
کا وہ کامیاب تجربہ رکھتے ہیں۔ الغرض یہ کہ ان کے پاس پانے کے لیے تو بہت کچھ ہے
لیکن انہیں فی الحال کھونے کا کوئی غم نہیں ستا رہا ہے۔ یہی ان کی کامیابی کا راز
ہے۔ کیوں کہ اب تک انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ حکومت سازی کے بعد کیجری
وال نے کام کی کچھ ترجیحات طے کی ہیں جسے آئندہ تین ماہ میں مکمل کرنے کا اعلان
کیا ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کیجری وال سرکار کے سہ ماہی ایجنڈے پر: ہرخاندان
کو سات سو لیٹر مفت پانی کی فراہمی، سوراج قانون کا مسودہ اسمبلی میں ہوگا، اہم فیصلوں
کے لیے عوام کی رائے لی جائے گی، بجلی کے میٹروں کی درستی کے لیے فوری طور پر
کارروائی، بجلی صارفین پر درج مقدمات واپس ہو ںگے، جل بورڈ کی از سر نو تشکیل،
پینے کے پانی کی نجکاری پر روک لگے گی، گھریلو زمرے کے ناجائز بل معاف ہوںگے، غیر
مستقل ملازمین مستقل کیے جائیں گے، پبلک اسکولوں کی من مانی پر روک لگے گی، خواتین
کے تحفظ کے لیے اسپیشل سکیریٹی فورس کا نظم، غیرمنظور شدہ کالونیوں کی منظوری کا
عمل شروع ہوگا، جھگیوں کو توڑنے پر پابندی لگے گی۔ ویٹ ضابطوں میں ترمیم کی جائے
گی، ایک ماہ میں جن لوک پال بل کا مسودہ پاس ہوگا۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔