حالیہ دنوں سبکد وش ہونے والے بھارت کے سابق داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ نے جب بی جے پی میں شمولیت کا اعلان کیا تو سیاسی تجزیہ نگاروں کے ایک حلقے کو حیران کن مایوسی ہوئی، کیونکہ خیال یہ تھا کہ یو پی اے کے دور اقتدار میں اتنے اہم عہدے پر فائز اس اعلیٰ افسر کی سیاسی وابستگی یقیناً کانگریس کے ساتھ ہوگی ، کیونکہ عام طور پر حکمراں جماعت کے ہم خیال افسروں ہی کو اہم عہدے حاصل ہوتے ہیں ، یہ اس لئے بھی ہوتا ہے تاکہ حکمراں طبقے اور افسر شاہی میں تال میل قائم رہے۔ اور اعلیٰ افسران حکمراں سیاسی جماعت کی پالیسیوں کے مطابق عمل کریں۔ لیکن ہوا یہ کہ سبکدوشی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ خبر آئی کہ سابق داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ نے بی جے پی کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی یہ واضح ہوگیا کہ موصوف اپنی سرکاری حیثیت میں بھی کس سیاسی خیمے کے مفادات کا تحفظ کر رہے تھے۔
بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دیے گئے ان کے بیانات سے بھی سیاسی گلیاروں میں ہلچل پیدا ہوئی۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں موصوف نے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی کارکردگی پرتنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ منموہن سنگھ کو ملک کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔ اور اب تازہ سنگین حملہ خود وزیر داخلہ سشیل کمار شندے پر کیا ہے جس میں کہا ہے کہ سشیل کمار شندے نے ممبئی کے ایک ایسے تاجر کے خلاف کار روائی نہ کرنے سے روک دیا تھا جس کا نام اسپاٹ فکسنگ معاملے میں سامنے آیا تھا اور یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ اس تاجر کے تعلقات داود ابراہیم سے تھے۔
ملک کے انتہائی اہم عہدے پر فائز رہ چکے ایک اعلیٰ افسر کا یہ بیان انتہائی سنگین نو عیت کا ہے اس کا نوٹس لیے جانے کی سخت ضرورت ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ آر کے سنگھ اس معاملے میں عہدے پر رہتے ہوئےایک ذمہ دار حیثیت سے اپنی ذمہ داری کیوں نہیں اد کی، کیا انہوں نے اس سلسلے میں کابینہ سکریٹری اور پی ایم او کو اس بابت کوئی رپورٹ کیوں نہیں دی وہ یہ کہ کرہر گز پہلو تہی نہیں کر سکتے کہ وزیر کی منشا کے خلاف کار روائی نہیں کی گئی یہ مسئلہ ملک کی سلامتی کا بھی ہے وہ ایک غیر قانونی عمل تماشائی بن کر کیوں دیکھتے رہے؟
خیال رہے کہ یہ وہی آر کے سنگھ ہیں جنھوں نے 22 جنوری 2013 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ سمجھوتا ایکسپریس ، مکہ مسجد اور اجمیر دھماکے میں آر ایس ایس کے دس کارکن شامل تھے۔ لیکن عہدے سے سبکدوش ہوتے ہی خود آر ایس ایس کی پناہ میں چلے گئے۔ یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ ظاہر ہے اب وہ ہر اس بات سے بی جے پی کو آگاہ کرنے کا کام کریں گے جن کا منصوبہ موجودہ سرکار نے ترتیب دیا ہوگا۔
الغرض یہ کہ اب آر کے سنگھ بی جے پی کی پالیسی ساز ونگ کا حصہ بن گئے ہیں، بی جے پی سے ان کی وابستگی کی بنیادی وجہ کیا ہے،یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ کن اصولوں کی بنیاد پر وہ بی جے پی سے وابستہ ہوئے ہیں یہ ان کا اپنا معاملہ ہے، لیکن ملک کے ایک عام شہری کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ 22 جنوری 2013 کو جب بحیثیت داخلہ سکریٹری وہ میڈیا کے سامنے اپنی وزارت کا پریس نوٹ دہرا رہے تھے تو کیا یہ ان کی عہدے کی مجبوری تھی؟
تحقیق طلب امریہ بھی ہے کہ ان کے دور میں لئے گئے فیصلوں سے فسطائیت کو کیا حاصل ہوا؟
سوال ان سیاسی حلقوں سے بھی ہے جو دن رات فرقہ واریت کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملاً کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ سوال ملک میں سرگرم ان سماجی تنظیموں اور گروپوں سے بھی ہے جو ملک میں سیکولرزم کے فروغ اور فسطائیت کو ختم کرنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں کیوں کامیاب نہیں ہوتیں۔ انھوں نے آر ایس ایس کی فرقہ پرستی سے مقابلے کے لئے کیاحکمت عملی تیار کی ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ملک گیر سطح پر کام کرنے کے لئے کئی منصوبے ترتیب دے رکھے ہیں۔ طلبامیں کام کرنے کے لئے 1949میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد قائم کی۔ مزدور طبقات میں اپنے اثرات قائم کرنے
کےلئے 1955میں بھارتی مزدور سنگھ بنایا۔ مذہبی حلقے میں سرگرمی انجام دینے کے لئے وشو ہندو پریشد کا قیام 1964 میں کیا۔ قبائل کو آر ایس ایس کی سرگرمیوں سے وابستہ کرنے کے لئے 1977 میں ونواسی کلیان پریشد قائم کیا۔ تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کے لئے 1977 میں ودیابھارتی نامی تنظیم قائم کی اور خدمت خلق کے میدان میں کام کرنے کے لئے 1980 میں سیوا بھارتی قائم کی۔ اس کے علاوہ سیکڑوں ذیلی انجمنیں قائم ہیں جو اپنے اہداف کے حصول کی جانب رواں دواں ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ فرقہ پرستی میں کامل یقین رکھنے والے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے منظم ڈھنگ سے کام کر رہے ہیں لیکن فسطائیت کی روک تھام کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہوتیں؟
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔