تحریرمولانا محمد اسجد قاسمی ندوی کی ہے //
انسان خداوند قدوس کی مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین، محترم اور باعظمت مخلوق
ہے، اور خدا کی بارگاہ میں انسان کی اداؤں میں سب سے پیاری ادا عبادت اور بندگی کی
ادا ہے؛ بلکہ اسی کو تخلیق انسانیت کا ہدف ومقصود قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے:
’’میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری
عبادت کریں۔‘‘(الذٰریات: ۵۶)
اسلام میں عبادات کا عظیم الشان سلسلہ موجود ہے، الگ الگ نوع اور تاثیر کی عبادتیں
ہیں، ایک ہرا بھرا باغ جس طرح گلہائے رنگا رنگ آراستہ ہوتا ہے اور اس کی تمام رونق
وزینت ان ہی رنگ رنگ کے پھولوں کے دم سے ہوتی ہے، اسی طرح اسلام عبادتوں کا چمن ہے،
اس میں بدنی عبادتیں بھی ہیں اور مالی بھی، قولی عبادتیں بھی ہیں اور قلبی بھی، اور
قول وعمل، مال وبدن سے مل کر ترکیب پانے والی عبادتیں بھی ہیں، غرضے کہ عبادتوں کا
پورا گلستاں ہے، اور ہر عبادت کا اپنا الگ رنگ، منفرد تاثیر، مستقل نتیجہ اور جداگانہ
انوار وبرکات ہیں، اس لحاظ سے ہر عبادت دوسری سے بڑھ کر ہے، کوئی ایک عبادت دوسری کی
جگہ نہیں لے سکتی، کسی ایک عبادت سے دوسری کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوسکتی، نماز پڑھ
کر روزے کی ضرورت پوری کرلی جائے یا زکاۃ دے کر حج کی ضرورت پوری کرلی جائے یہ ناممکن
ہے۔
حج بیت اللہ
حج بیت اللہ؛ اللہ کی انتہائی عظیم الشان اور عجیب وغریب عبادت ہے، اس کی اپنی
انفرادی تاثیر اور انوکھا رنگ ہے، یہ بہ یک وقت مالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی، اس
میں جسمانی مشقت بھی ہے اور روح کا تزکیہ بھی، اس میں ہجرت کا عکس بھی ہے اور جہاد
کی مشق بھی، اس میں عاشقانہ طواف کی ادئے دل نواز بھی ہے اور قربانی کا والہانہ انداز
بھی، اس کے جلو میں تلبیہ وتوحید کا ترانہ ونغمہ بھی ہے اور دعا وتذلل کی آہ وزاری
بھی، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل عمل کی بابت دریافت کیا گیا،
تو آپ نے ایمان وجہاد کے بعد حج مبرور ومقبول کو سب سے افضل عمل بتایا۔
حج کے انقلابی اور بے شمار فوائد
حج بیت اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے فوائد، برکات اور آثار وثمرات اتنے انوکھے
اور زیادہ ہیں کہ ان کو پورے طور پر سمجھنا اور ان کا مکمل ادراک سن کر اور بتاکر نہیں
ہوسکتا؛ بلکہ اس کا تعلق دیارِ حرم کی حاضری اور بچشم خود مشاہدے سے ہے، قرآن کا اسلوب
دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے حج کے منافع کا صراحۃً ذکر نہیں فرمایا؛ بلکہ
ارشاد ہوا:
’’لوگوں میں حج کا اعلان
کردو کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دور دراز کے راستوں میں سفر کرنے والی ان اونٹنیوں
پر سوار ہوکر آئیں جو لمبے سفر سے دبلی ہوگئی ہوں؛ تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں
جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں۔‘‘(الحج: ۲۷-۲۸)
ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے تعمیر بیت اللہ کے بعد
حج بیت اللہ کے اعلانِ عام کا حکم دیا گیا ہے، پھر اس حکم کے بعد یہ بشارت سنائی گئی
ہے کہ لوگ قافلہ درقافلہ حج کے لئے ہر طرح کی مشقت وصعوبت برداشت کرکے ہر جگہ سے پروانہ
وار آئیںگے، پھر حج کے سفر پر آنے کا فائدہ اس طرح بتایا گیا کہ: ’’تاکہ وہ اپنے حج
کے منافع خود آکر دیکھ لیں‘‘۔
قرآنِ کریم نے نماز، روزہ اور زکاۃ کے فوائد صریحاً بیان کردیے؛ لیکن حج کے
فوائد کی تصریح کے بجائے حجاج کے خود آکر مشاہدہ کرنے کی بات ارشاد فرمائی، اس طرح
سے واضح کردیا گیا کہ حج کے منافع اتنے اورایسے ہیں کہ وہ پڑھنے، سننے، بتانے اور بیان
کرنے سے نہیں؛ بلکہ حاضری اور مشاہدے سے سمجھ میں آتے ہیں۔جو صاحب ایمان اپنے بخت کی
سعادت سے حج کے مبارک سفر پر اخلاص کے ساتھ جاتا ہے، دیارِ حرم میں تمام آداب بجالاکر
حاضر ہوتا ہے، تو اس دیار کے مقدس سفر میں ہر گام اور ہر قدم پر اسے ادراک ہوتا جاتا
ہے کہ اس عبادت کی کیا برکات واثرات ہیں؟ اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب اس کی شخصیت
میں، کردار وعمل میں اور جذبات وسیرت میں مقدس تبدیلی آرہی ہے، وہ گناہوں کی گندگی
سے نکلتا اور تقویٰ وصلاح کے حصار میں سماتا چلاجاتا ہے، اور اس کی زندگی یکسر تبدیل
ہوتی جارہی ہے، یہ حج کے منافع ہیں جو وہاں حاضر ہونے والے کو اس کے اخلاص اور حسن
نیت کے تناسب سے محسوس ہوکر رہتے ہیں۔
حج کے بعد
حج کی عظمت اور اس کی انفرادی افادیت وتاثیر کا بیان اس حدیث نبوی سے بڑھ کر
کیا ہوسکتا ہے؟ فرمایا گیا: ’’جو شخص اس طرح حج کرے کہ اس نے کوئی بے حیائی کا کام
نہ کیا ہو اور نہ کسی گناہ وفسق میں مبتلا ہوا ہو وہ اس طرح پاک وصاف ہوکر لوٹتا ہے
جیسے آج اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: کتاب الحج)
متعدد نصوص میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ حج کی عبادت میں وہ تاثیر ہے کہ
اس سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، گویا حج کے بعد صاحب ایمان کی حیاتِ مستعار کا ایک
دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ مبارک ہے وہ خوش نصیب انسان جسے حج بیت اللہ کی سعادت عطا
ہوئی، جس نے دیارِ حرم میں جان ومال ووقت تینوں کی قربانی دے کر حاضری دی، اور اپنے
جذبۂ عشق کی تسکین کا سامان کیا، جو دیوانگی کے انداز میں پروانوں کے مانند شمع حرم
کے گرد محو طواف رہا، جس نے مزدلفہ ومنیٰ اور عرفات کی وادیوں میں اپنے جذبات محبت
وبندگی مختلف شکلوں میں پیش کردیے۔
شرف حج سے مشرف حاجی کے لئے حج سے واپسی کے بعد سب سے زیادہ قابل توجہ بات،
سب سے اہم لمحۂ فکریہ، اولین فکر کامقام یہ ہے کہ اب اس کی زندگی کا یہ دوسرا دور
کیسا گزرنا چاہئے؟ اور اس کا رنگ ڈھنگ کیسا ہونا چاہئے؟ ذیل میں اسی تعلق سے چند معروضات
پیش ہیں:
حج کو مقبول بنانے کی فکر
سب سے اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہماری حج کی عبادت بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوجائے،
اور حج سے پہلے، دورانِ حج اور حج کے بعد ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جو
ہماری اس عبادت وریاضت کو بے مول اور ناقابل قبول بنا ڈالے، احادیث میں آیا ہے: ’’جو
حج اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے اس کا صلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘(صحیح بخاری: کتاب
الحج)
حج کے مقبول ہونے کی واضح علامتیں یہ ہیں:(۱) سب سے نمایاں علامت
حج کی قبولیت کی یہ ہے کہ سفر حج سے واپسی کے بعد انسان کی ایمانی حالت پہلے سے بہتر
ہوجائے، عمل کا ذوق بڑھ جائے، اعمالِ خیر میں اضافہ ہوجائے، گناہوں سے انتہائی حد تک
نفرت اور گریز کی کیفیت پیدا ہوجائے، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق تمام
شعبوں میں مکمل طور پر تعلیماتِ دین کو اپنانے کی فکر بڑھ جائے، انسان کی کیفیت ہاسپٹل
سے شفا یاب ہوکر ’’ڈس چارج‘‘ ہونے والے مریض کی طرح ہوجائے کہ جب وہ ہاسپٹل گیا تھا
تو مرض نے اسے لپیٹ میں لے رکھا تھا، اب شفایاب ہوکر ہاسپٹل سے نکلا تو بالکل صحت مند
اور ہشاش ہے، اسی طرح غرق عصیاں انسان حج کو جائے اور سب کچھ معاف کراکے دُھلا دُھلایا
پاکیزہ بن کر لوٹ آئے اور پھر کسی قیمت پر اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دے۔(۲) حج کے مقبول ہونے
کی ایک علامت یہ ہے کہ دورانِ حج حاجی سے کوئی گناہ صادر نہ ہو، انتہائی بیدار مغزی
کے ساتھ پھونک پھونک کر ہر قدم اٹھایا جائے؛ تاکہ حج کی عبادت کسی گناہ کی گندگی سے
آلودہ اور مکدر نہ ہونے پائے۔(۳) حج کے قبول ہونے کی ایک
نشانی یہ ہے کہ عبادت کامل اخلاص کے ساتھ انجام دی جائے، ریا، دکھاوے اور شہرت کا جذبہ
بالکل نہ پایا جائے۔ (۴) ایک علامت یہ بھی ہے کہ
سفر حج سے لوٹنے کے بعد سفر آخرت کی تیاری میں انہماک ہوجائے، دنیا سے بے رغبتی بڑھ
جائے اور آخرت کی طرف رغبت بڑھ جائے، بیت اللہ کے بعد ربّ البیت سے لقاء ووصل کا شوق
فروزاں ہوجائے۔(۵) احادیث میں حج مقبول کی
یہ علامت بھی آئی ہے کہ جن کا حج قبول ہوجاتا ہے ان کی کنکریاں اٹھالی جاتی ہیں، اور
جن کی کنکریاں وہاں پڑی رہ جاتی ہیں ان کا حج قبول نہیں ہوتا، اسی لئے علماء نے متوجہ
کیا ہے کہ جمرات کے قریب سے کنکریاں نہ اٹھائی جائیں؛ اس لئے کہ یہ ان لوگوں کی کنکریاں
ہیں جن کا حج قبول نہیں ہوا۔(۶) حج کی قبولیت کی ایک علامت
یہ بھی ہے کہ واپسی کے بعد دوبارہ دیارِ حرم میں حاضری کا شوق بڑھ جائے، اور پھر ہر
مرتبہ حاضری کے بعد دوبارہ حاضر ہونے کے جذبات پیدا ہوں۔
حج مقبول کی یہ چند علامات ہیں، سفر حج سے واپسی کے بعد ہر حاجی کو یہ فکر رہنی
چاہئے کہ اس میں یہ علامتیں ہیں یا نہیں، یہ ہر حاجی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھا
جائے کہ حج کا ادا ہوجانا الگ چیز ہے، اور اس کا دار ومدار حج کے تمام اعمال شرعی اصول
کے مطابق انجام دینے پر ہے، جب کہ حج کا قبول ہونا الگ چیز ہے، اجر وثواب، درجات کی
بلندی اور حج کے بے شمار فوائد کا حصول اسی قبولیت پر موقوف ہے، جس کی کچھ علامتیں
اوپر ذکر ہوئیں، اور ہر حاجی کو اس پر اپنی مکمل توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔
نعمتِ حج کا شکر
حج بیت اللہ کی توفیق عظیم ترین نعمتِ الٰہی ہے، اس نعمت کا حق سچے شکر کے بغیر
ادا نہیں ہوسکتا، اللہ کی سنت کے مطابق نعمتوں کا دوام وتسلسل اور بقاء واضافہ شکر
پر موقوف رہتا ہے، اس لئے ہر حاجی کا یہ فرض ہے کہ وہ حج کے اس انعام پر شکر گزار بنے،
شکر کی حقیقت اطاعت واتباع ہے، شکر ادا ہوگا تو حج کے برکات ومنافع حیات وسیرت میں
جلوہ گر ہوںگے، اور آئندہ توفیق میسر آتی رہے گی، ورنہ محرومیوں کا سامنا کرنا پڑے
گا۔
مالِ حرام سے اجتناب
یوں تو صاحب ایمان بطور خاص حاجی کو اپنی عملی زندگی میں تمام گناہوں سے بچنا
ہے؛ لیکن بطور خاص مالِ حرام سے انتہائی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ گریز ہونا چاہئے،
یہ وہ زہر اور لعنت ہے جس میں اکثریت مبتلا نظر آتی ہے، رشوت، سود، خیانت، دھوکہ دہی،
کام چوری، اور دوسروں (بطور خاص اپنی بہنوں) کے حقوق ہڑپ لینے کی وبا میں عوام وخواص
سبھی گرفتار ہورہے ہیں، حلال وحرام کا فرق امت سے مٹتا جارہا ہے۔
آج ہماری سماجی زندگی میں بے شمار ایسے حجاج ہیں جن کی زندگیاں حج کے بعد بھی
پہلے سے کچھ مختلف نظر نہیں آتیں، اور سیرت میں صلاح کا وہ رنگ نہیں ملتا جو مطلوب
ہے، اس کی ایک بہت بنیادی وجہ یہ ہے کہ حج میں جیسا حلال وپاکیزہ سرمایہ لگانا چاہئے
نہیں لگایا جاتا اور حج کے بعد مال حرام سے جس درجہ گریز ہونا چاہئے نہیں ہوتا۔ احادیث
میں آیا ہے کہ جو حاجی حلال مال سے حج کرتا ہے اس کے حج کی قبولیت کا فیصلہ واعلان
من جانب اللہ فرمایا جاتا ہے، اور جو مال حرام ومشتبہ لگاتا ہے اس کے حج کو من جانب
اللہ واضح الفاظ میں مردود اور جرم قرار دیا جاتا ہے، اس لئے یہ دوہری ذمہ داری ہے
کہ: (۱) اول تو مال حرام
ومشتبہ سے حج کا سفر بالکل نہ کیا جائے، (۲)دوسرے حج کے بعد بھی حرام خوری کی ہر چھوٹی بڑی شکل سے پرہیز
کیا جائے۔
ملی وحدت کا تحفظ
حج کی عبادت اجتماعی عبادت ہے، اور ملکی وعلاقائی نہیں، عالم گیر اجتماعیت کا
منظر ہوتا ہے، عالمی سطح پر وحدتِ ملی کا جو پرکیف منظر حج کے سالانہ اجتماع میں ہے
وہ کہیں نہیں پایا جاتا، لباس، امام، نقل وحرکت، زبان وعمل سب کی وحدت عجیب سماں پیش
کرتی ہے، پھر یہ اجتماع اس خطہ زمین میں ہوتا ہے جو دنیا میں امن اور حقیقی مساوات
اور تمام برکات کی اجتماعیت کا واحد مرکز ہے، ان سب کا پیغام یہی ہے کہ اس اجتماع میں
شریک ہر فرد وہاں سے یہ جذبہ لے کر آئے اور یہ ذمہ داری سمجھ کر آئے کہ اب اسے اپنے
ہر قول وعمل سے ہر قیمت پر اور ہر صورت میں ملت کی اجتماعیت اور وحدت کو باقی رکھنا
ہے، اس میں یہ شعور پیدا ہوجائے کہ اس ملت کو تفرقوں اور اختلافات کی نحوست نے کھوکھلا
کرڈالا ہے، اور غیروں کے لئے نوالۂ تر بنادیا ہے، اور اب جب تک اپنے مفادات ومنافع
کو قربان کرکے ملت کو متحد کرنے کی سمت میں سفر کا آغاز نہیں ہوگا، ملت بدحالی اور
محرومی کے بوجھ سے کراہتی رہے گی، سفر حج سے لوٹنے والے ہر حاجی کو تحفظ وحدتِ امت
کی اپنی ذمہ داری سمجھنی اور ادا کرنی چاہئے۔
یہ چند بنیادی باتیں ہیں، ان کے علاوہ تمام منکرات بطور خاص بے پردگی اور اسراف
سے احتیاط، ظاہر (ڈاڑھی، شکل ولباس) کو سنت
کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر، نماز باجماعت اور یومیہ تلاوتِ قرآنِ کریم، دینی کتب کے
مطالعہ اور دعاؤں کے اہتمام کی ذمہ داری بھی ہر حاجی کو پوری کرنی چاہئے۔
سفر حج کا اصل تحفہ
سفر حج کا اصل تحفہ اور سوغات بعد کی زندگی میں ایمانی انقلاب ہے، ہم نے شومئ
قسمت سے صرف زمزم وکھجور سے سیرابی اور میزبانی، مادی اشیاء کی خرید اور دعوت وتقریب،
استقبال وتشہیر، پھول اور زینت جیسی رسموں سے اپنے مبارک سفر کی معنویت اور قدر وقیمت
مجروح کردی ہے اور اس طرح ہم حج کے اکرام کے بجائے اس کی تحقیر کا عمل انجام دے رہے
ہیں۔شاید اقبالؔ نے اسی صورتِ حال کو دیکھ کر کہا ہے:
زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس روحانی بابرکت سفر کا اصل تحفہ صلاح، استقامت، انقلاب
اور تبدیلی کا وہ پیغام ہے جو وہاں کے ہر ہر ذرے، ہر ہر بام ودر، اور وہاں انجام پانے
والے ہرہر عمل کے ذریعے ہم کو پورے سفر میں دیا جاتا رہا، بس ہمیں اسی پیغام کی قدر
کرنی ہے اور امت کے ہر فرد تک حج کی یہ اصل سوغات پہنچانی ہے، یہ ہماری اولین ذمہ داری
ہے، بقول اقبالؔ:
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراںخیز
از خوابِ گراں خیز
بہ شکریہ روزنامہ خبریں
http://www.roznamakhabrein.com/epaper/page_4big.html
مضمون نگار
جامعہ عربیہ امدادیہ ،مرادآباد کے شیخ الحدیث ہیں
موبائل نمبر09412866177
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔