اشرف
علی بستوی، نئی دہلی/
وزیر دفاع اے کے انٹونی جب 19 فروری کو
راجیہ سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایوان کو یہ بتارہے تھے کہ 2011 سے
اب تک ملک کی مسلح افواج میں مبینہ جاسوسی کے پانچ معاملے سامنے آئے ہیں تو انہی ایام
میں اتر پردیش اے ٹی ایس چھٹے مبینہ جاسوس سابق فوجی صوبے دار اندرپال کشواہا کی گرفتاری
کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی ، اسے پڑوسی ملک کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں 24فروری
کو جھانسی سے گرفتارکیا گیا ہے اب وہ پولیس تحویل میں ہے ۔ دراصل ایوان میں یہ سوال
سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نریش اگروال نے تحریری طور پر کیاتھا۔ وزیر موصوف نے
مزید کہا کہ ملک کی کچھ انٹلیجنس ایجنسیاں مبینہ طور پر جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث
ہیں ، تاہم اس کو روکنے کے لئے مناسب اقدامات کئے جارہے ہیں۔
وزیر دفاع کا یہ
انکشاف عوام کے لیے حیرت انگیز تو ہو سکتا ہے لیکن نیا نہیں کیوکہ میڈیا میں یہ خبریں
وقفے وقفے سے آتی رہی ہیں۔
یقینا وزیرد فاع کے اس انکشاف سے ہر محب
وطن شہری کو دلی تکلیف پہنچنا فطری ہے کیونکہ ملک کا ہر شہری اپنی گاڑھی کمائی کا بڑا
حصہ جو ٹیکس کی شکل میں سرکاری خزانے میں جمع کرتا ہے اور اس کا بڑا حصہ ملک کی دفاع
پر خرچ کیا جاتا ہے،اپنی مسلح افواج کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرانے کی سرکار بھرپور
کوشش کرتی ہے، ابھی رواں سال 2014-15 کے لئے 17فروری کو جو عبوری بجٹ پیش کیاگیا ہے،
اس میں دفاعی اخراجات کی مد میں دس فیصد اضافے کی بات کہی گئی ہے۔
بلا شبہ ہر برس
26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر منعقد پریڈ میں جنگی سازوسامان اور مسلح افواج
کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر ہرمحب وطن شہری کےدل ودماغ میں اپنی افواج کے تئیں احترام
کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، لیکن جب کبھی میڈیا میں مسلح افواج کے ذریعے جاسوسی کرنے کی
خبریں آتی ہیں تو نہ صرف عوام کااعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ مسلح افواج کی کارکردگی
پر ذہنوں میں سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔ یقینا یہ عمل ہر ایک کو تشویش میں مبتلا کردینے
والا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
واضح ہو کہ ماضی
میں ایسے کئی مواقع پر جب جب سکیوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے عدم توجہی اور جاسوسی جیسے
قبیح جرم سرزد ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے اور ملک
کو سلامتی کے خطرات سے دوچار ہونا پڑا ہے ماضی میں ملک کے ساحلوں کی حفاظت پر تعینات
سیکورٹی افسران کی سازباز کی وجہ سے ہی وطن عزیز میں بڑے دہشت گردانہ واقعات ہوئے۔
1993 میں ممبئی میں بم دھماکوں کے واقعات کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ دھماکہ خیز
مادے کی سپلائی میں ساحلی گارڈ ملوث تھے۔ اس کے علاوہ 26نومبر 2008 کو تاج ہوٹل دھماکے
اور 13 دسمبر2001 کو پارلیمنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کی
کارکردگی پر سوالات کھڑے کئے گئے تھے۔ لیکن مزکورہ سبھی معاملوں میں موقع پر تعینات
سکیوریٹی ایجنسیوں کی عدم کار کردگی پر کوئی تادیبی کار روائی
نہیں دیکھی گئی۔ جب کبھی معاشرے کے باشعور
حلقے اس جانب توجہ مبذول کراتے ہیں تو انہیں یہ کہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ سکیوریٹی
ایجنسیوں کا مورال ڈاون ہوگا۔ اس کےعلاوہ بھی کئی معاملات پیش ا?ئے ہیں جن میں سیکورٹی
ایجنسیوں کی عدم کارکردگی سامنے ا?ئی ہے۔
مسلح افواج کی مبینہ
جاسوسی کے بارے میں وزیردفاع نے ایوان کو یہ تو بتایا کہ مذکورہ مدت میں پانچ معاملات
ظاہر ہوئے ہیں لیکن معاملات سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں ابتک کتںے معاملات
میں جرم ثابت ہو نے پر سزا دی جا سکی ہے اس پر کچھ نہیں کہا ہے۔ بہرحال یہ معاملہ ملک
کی سلامتی سے وابستہ ہے ،سرکار کو اس طرح کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سخت کارروائی
کرنی چاہئے۔
1 تبصرہ کریں:
آپ ایک سچے دیش بھگت ہیں۔ بس اپنے بستے کا خیال رکھیے گا کہیں راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دل یا شیو سینا کے ہاتھ نا لگ جائے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔