تحریر:- احمد جاوید----
جس وقت میں یہ سطورسپردقلم
کررہاہوں، دنیا انقلابی مفکر چے گویراکی سالگرہ منارہی ہے۔14جون ارجنٹائنا کے
انقلابی نوجوان،حریت پسندمصنف، جفاکش گوریلارہنما،ڈپلومیٹ اورفوجی نظریہ داں چے کا
یوم پیدائش ہے لیکن مجھےاس موقع پر اس کی پیدائش نہیں، موت یادآرہی ہے۔ اس لیے
بھی کہ دنیا میں ہردن لاکھوں کروڑوں بچے پیداہوتے ہیں لیکن ان میں سے کتنے
ہیں جن کا یوم پیدائش ان کےاپنے قریبی رشتہ داراور والدین بھی یاد رکھتے ہیں،ہاں
اس شخص کا یوم پیدائش ضروریاد رکھاجاتا ہے جس کی موت یادگارہوتی ہےیا موت کو گلے
لگاتے وقت تک وہ زندگی کوامرکرچکاہو تا ہےیعنی جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیاوہ شان
سلامت رہتی ہے/یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں اور اسلیے بھی
کہ چے گویراکا قتل انقلاب کی تاریخ کا ایک بڑاعبرتناک واقعہ ہے۔اس انقلابی
نوجوان اور گوریلارہنماکو صفحہ ہستی سےمٹانے کے لیے سی آئی اے نے جو طریقہ
اپنایا آج دنیا کےمختلف حصوں میں کئی قومیں اورحکومتیں اپنے ناپسندیدہ افراد اور
گروہوں کے خلاف وہی طریقےدھڑلے سے استعمال کررہی ہیں۔انقلابیوں کے گروہوں اور
معتوب فرقوں اورجماعتوں کے درمیان اپنے ایجنٹ داخل کردینا ، ان کو طرح طرح سے بدنام
کرناکرانا اور پھران کواپنی سہولت کے مطابق نشانہ بنانا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے
ڈال دینا، ان پراور ان کے اپنے پرایوںپرانسانیت سوزمظالم ڈھانا یاقتل کردینااس
زمانے میں اتنا عام نہیں تھا جب بولیویامیں چےکو قتل کیا گیاتھااور اس لیے بھی
کہ یہ اسکی صرف 86ویں سالگرہ ہے۔اگرسی آئی اے نے اس کو دردناک طریقہ سے
ٹھکانے نہ لگایاہوتا تو عین ممکن ہے کہ وہ آج اپنے چاہنےوالوں کے درمیان
کیک کاٹ رہاہوتا لیکن افسوس اس کے چاہنے والے اس کی پیدائش کے صرف 85 سال بعد اس
کی 47 ویں برسی منانے کی تیاری کررہے ہیں۔
حال ہی میں حکومت ہند کی
وزارت داخلہ نے سیکوریٹی ایجنسیوں سے ماؤنوازدہشت گردوں کا علاج جاننا چاہاتو آئی
بی نےیہ عذر پیش کیاکہ جس طرح دوسری دہشت گردتنظیموں کے اندراس کے ایجنٹ
موجودہوتے ہیں اوران کی منٹ منٹ کی نقل و حرکت کی خبریں اسے ملتی رہتی
ہیں،ماؤنوازتنظیموں کے اندرنہیں ہیں۔ اگر حکومت اس کی اجازت دےاور اس کے لیے فنڈ
مہیاکرائے تو کام آسان ہوجائے گا ۔ہماری نئی حکومت نے فی الفورآئی بی کو اس
کی اجازت دے دی ، قوم پرستوں کی اس حکومت سےایجنسی کو اسی کی توقع بھی تھی۔ پھراس
نےآناًفاناً پروجیکٹ بنایا اورپاورپوائنٹ کی مددسے وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسران
اوروزراکے سامنے یہ پروجیکٹ پیش کیا کہ وہ کیا کریں گے،ان کوحکومت سے اس کے
لیےکیاکیاچاہیےاور اس میں کتنا سرمایہ درکارہے۔میڈیامیں یہ خبرآئی تومجھے کئی
عشرت جہاں، سہراب شیخ،اکشردھام مندرکے حملہ آور، بے گناہ مقتولین، ملزمین ،
مالیگاؤں کے بم دھماکےاوربہت سے لفٹننٹ کرنل پروہت بھی یاد آئے اور چے گویرا
بھی بہت یاد آیا۔
ارنسٹوگویراعرف چے
ارجنٹائنا کے ایک خوشحال گھرانے کاچشم وچراغ تھا۔بچپن سے کھیل کود کا دلدادہ،
نوجوانی آتے آتے بہترین ایتھلیٹ اورشطرنج کاماہرکھلاڑی بن چکاتھا۔
اسی کے ساتھ وہ کتابوں کابھی رسیا تھا، خوش قسمتی سے اس کے گھر میں 3000 سے
زائدکتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، جس سے اس نے اپنے علم میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔وہ
بنیادی طور پر میڈیکل کا طالب علم تھا، تعلیمی کیرئر کے دوران ہی اس کے اندر سیاحت
کا شوق پیدا ہوا،اور 1950 سے 1953ء تک اس نے جنوبی امریکہ کے ملکوں کی تین بار
سیاحت کی ، جس میں پہلے1950 میں اس نے سائیکل پر تنہا4500 کلومیٹر کا سفر براعظم
کے جنوب سےشمال کی جانب طے کیا۔ دوسرا سفر اس نے 1951میں موٹر سائیکل پر طے کیا۔جو تقریباًدگنا لمبا
یعنی8000 کلومیٹر تھا۔ تیسرا سفر اس نے 1953 میں کیا– تینوں بار اس نےچلی ،پیرو ، ایکواڈور ، کولمبیا ، وینیزویلا ، پانامہ ، برازیل ، بولیویا اور کیوبا جیسے ممالک اور ان کے عوام کی
زندگیوں کو قریب سے دیکھا۔ کیوبا کے انقلاب کے بانیوں میں شامل چے کوان ملکوں
کی غربت، بھوک اور بیماری نے اس قدرمتأثر کیاکہ اس نے ریاست ہائے متحدہ
امریکا کے حکمرانوں کےاستحصال سے جنوبی امریکی ممالک کونجات دلانے کے لیے
اپنی بقیہ زندگی وقف کردی۔
گوئٹے مالا کے صدر جیکبو
آربینز نے جب امریکی یونائیٹڈ فروٹ کمپنیکو قومی ملکیت میں لیا اور دیگر سماجی
اصلاحات کیں تو سی آئی اے نے ان کا تختہ الٹ دیا اور جیکبو کو قتل کروا دیا۔ ویسے
تو یہی وہ واقعہ تھاجس نے امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام سے اس کے ذہن میں
نفرت پیدا کردی لیکن دراصل یہ نفرت اس کےدل ودماغ میں برسوں سے پل رہی تھی جواس
نازک لمحہ میں ایک بڑے جسارت مندانہ فیصلہ کی صورت میں سامنے آئی۔ اس
نےمیکسیکو شہر میں راول کاسترو اور فیڈل کاسترو سے ملاقات کی۔ اس کے بعد کیوبا کی
امریکی نواز فل جینی شیئو بیتیستا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ٹھانی۔ چےگویرا
نےانقلاب کے بعد کیوباکی انقلابی حکومت میں اہم کردار ادا کیا۔ زرعی اصلاحات کو
منظم کیا،ملک کاوزیرصنعت رہا۔تعلیم کے نظام میں جوہری تبدیلی کا محرک
بنا،ملک بھر میں تعلیم کے شعبے میں چلائی جانےوالی مہم میں حصہ لیا۔ کیوبا کے
نیشنل بینک کا صدر اور کیوبا کی فوج کا انسٹرکشنل ڈائریکٹر رہا، اورکیوبا کی سوشلسٹ
حکومت کی بیرون ملک نمایندگی بھی کی۔’’ بے آف پگز‘‘کی لڑائی میں امریکی مداخلت کے
خلاف مزاحمت کرنے والی ملیشیا کی مرکزی تربیت کرنے کا کردار چے نے ہی ادا کیاتھا
اور 1962 میں کیوبن میزائل بحران کو حل کرنےمیں بھی اس کااہم کردار
تھا۔ وہ ایک سیاسی مصنف اور ڈائری لکھنے کے ماہرکی حیثیت سے بھی جانا
جاتاہے۔ گوریلا جنگ کےماہر کی حیثیت بھی اس نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔
سامراج، سرمایہ داری، اجارہ داری اور جدید نو آبادیاتی استحصال کے خلاف جدوجہدکی
وہ ایک سب سے بڑی اورسب سے مضبوط علامت ہے۔
1965 میں چے
نےعالمی انقلاب کے لیے کیوبا کو چھوڑ دیا۔پھر وہ کانگو، کنشاسہ اور بعد ازاں
بولیویا میں گوریلا جنگ لڑتارہا۔ وہیں امریکی ایجنسی سی آئی اے نے ایک مذموم سازش
کے تحت اسے قتل کیا۔ جب وہ مر رہا تھاتو زور سے چیختے ہوئے کہا تھا کہ بزدلو
دیکھو میں کس بہادری سے مر رہا ہوں۔ اس کو مارنے کے بعد اس کے دونوں ہاتھکاٹ دیے
گئے اور اسے زمین میں دبا دیا گیا۔ ارجنٹینا، کیوبا اور بولیویا کی حکومتوں نےاس
کا جسد خاکی (ڈھانچہ) 30 برس تک تلاش کیااورتیس سال کے بعد کیوبا کے
دارالخلافہ ہواناکے چوراہے پر اس کے باقیات کو دفنایا گیاجہاں اب چے کا دیو قامت
مجسمہ کھڑاہے جس کے ہاتھ میں بندوق تھمائی ہوئی ہے۔
8؍اکتوبر1967ء کوسی آئی اے کی اطلاع پربولیویا کے
1800سے زائد سپاہیوں نے ’یورو روائن‘کے علاقے میں واقع چے گویرا کےگوریلا کیمپ کا
محاصرہ کر لیاتھا۔چے کے بہت سے ساتھی اس لڑائی میں مارے گئے اور وہ خود، دو گولیاں
لگنے سے شدید زخمی ہوگیاجس کے بعد اسے گرفتار کر کے ’لا ہیگویرا‘میں واقع عارضی
فوجی چوکی میں لایا گیا۔پہلے سی آئی اے نے اسے اذیتیں دیں۔پھراگلے دن دوپہر کو
بولیویا کے صدر رین بیرینٹوس کے حکم پر چے کو گولی مار دی گئی۔مرنے سے کچھ
منٹ پہلے ایک بولیوین سپاہی نے چے سے پوچھا ’’کیا تم اپنی لافانی زندگی کے بارے
میں سوچ رہے ہو؟‘‘، چے نے جواب دیا ’’نہیں! میں انقلاب کی لا فانیت کے بارے میں
سوچ رہا ہوں‘‘۔چے گویرا کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے ’’میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے
کے لئے آئے ہو۔ گولی چلاؤ بزدلو!تم صرف ایک انسان کی جان لے رہے ہو!‘‘۔
ہر بڑے انقلابی کی طرح چے گویراکی شخصیت، کردار اور زندگی کو بھی مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔حکمران طبقات کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے اصلاح پسند’’دانشوروں‘‘ نے بھی کردار کشی کی ان بھونڈی کوششوں میں برابر کے شریک تھے۔دیناکی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلاواقعہ نہیں تھا۔ استحصالی طبقات ہربار انقلابیوں پروحشی کتوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں،ان کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑکر پیش کیا جاتا ہے،بدترین بہتانوں اورذلت آمیز دشنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے۔اور جب یہ مرجاتے ہیں توکوششیں شروع کر دی جاتی ہیں کہ ان کو ایک بے ضررقسم کا انسان بنا کر پیش کیاجائے،ان کے بارے اور ان کے حوالے سے اس قسم کی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں اوران کو کیا سے کیا بناکے پیش کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ وہ انسان نہیںکچھ اور شے تھے لیکن چے اپنی موت کے بعد سوشلسٹ انقلابی تحریکوں کاہیرو اور جدیدپاپ کلچر کا نمائندہ بن گیا ۔البرٹو کورڈا کے بنائےہوئے چے کے فوٹونے ببے پناہ شہرت و مقبولیت پائی اور دنیا بھر میں ٹی شرٹوں،احتجاجی بینروں پر یہ فوٹو نمایاں ہوتاجارہاہے اور یوں چے گویرا ہمارے عہدکا معتبر و معروف انسان بن چکاہے۔چے گویراکی موت نے ثابت کیا ہے کہ ’انقلاب‘آسانی نہیں مرتا اور خون اپنے قاتلوں کا تعاقب کرتاہے۔
ہر بڑے انقلابی کی طرح چے گویراکی شخصیت، کردار اور زندگی کو بھی مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔حکمران طبقات کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے اصلاح پسند’’دانشوروں‘‘ نے بھی کردار کشی کی ان بھونڈی کوششوں میں برابر کے شریک تھے۔دیناکی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلاواقعہ نہیں تھا۔ استحصالی طبقات ہربار انقلابیوں پروحشی کتوں کی طرح ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں،ان کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑکر پیش کیا جاتا ہے،بدترین بہتانوں اورذلت آمیز دشنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے۔اور جب یہ مرجاتے ہیں توکوششیں شروع کر دی جاتی ہیں کہ ان کو ایک بے ضررقسم کا انسان بنا کر پیش کیاجائے،ان کے بارے اور ان کے حوالے سے اس قسم کی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں اوران کو کیا سے کیا بناکے پیش کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ وہ انسان نہیںکچھ اور شے تھے لیکن چے اپنی موت کے بعد سوشلسٹ انقلابی تحریکوں کاہیرو اور جدیدپاپ کلچر کا نمائندہ بن گیا ۔البرٹو کورڈا کے بنائےہوئے چے کے فوٹونے ببے پناہ شہرت و مقبولیت پائی اور دنیا بھر میں ٹی شرٹوں،احتجاجی بینروں پر یہ فوٹو نمایاں ہوتاجارہاہے اور یوں چے گویرا ہمارے عہدکا معتبر و معروف انسان بن چکاہے۔چے گویراکی موت نے ثابت کیا ہے کہ ’انقلاب‘آسانی نہیں مرتا اور خون اپنے قاتلوں کا تعاقب کرتاہے۔
بشکریہ روزنامہ انقلاب
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب پٹنہ کے ریزیڈنٹ اڈیٹر ہیں )
3 تبصرہ کریں:
پیش کرتا ہوں میں مبارکباد
انقلاب آفریں ہے یہ تحریر
احمد علی برقی اعظمی
ہے جو عصری آگہی کا ترجماں
مرجعِ اہلِ نظر ہے ’’ بازیافت‘‘
احمد علی برقی اعظمی
شکریہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔