حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

منگل، 17 جون، 2014

یہ انتظار کب تک جاری رہے گا، نہیں معلوم


تحریر :- ابوالاعلی سید سبحانی #

گزشتہ دنوں استاذ محترم مولانا محمد اسماعیل فلاحی (حفظہ اللہ ورعاہ) کے ہمراہ پٹنہ (بہار) جانے کا اتفاق ہوا۔ اعظم گڑھ سے بذریعہ ٹرین حاجی پور کے لیے روانہ ہوئے۔ ٹرین میں معمول کے مطابق مختلف قسم کے واقعات پیش آئے، تاہم سامنے کی سیٹوں پر بیٹھے چند مسافروں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔
یہ تین نوجوان دو لڑکے اور ایک لڑکی تھے، دیکھنے میں یونہی عام سے نوجوان معلوم ہوتے تھے۔ تاہم جب ان سے تعارف ہوا، اور مختلف موضوعات پر گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ بہت ہی ذہین قسم کے تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ سماجی مسائل کے سلسلے میں ان کے اندر کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ رہنے والے گورکھا لینڈ کے ہیں،لیکن ایک طویل عرصے سے اعظم گڑھ کے ایک مشنری اسکول میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہندی زبان سے معمولی واقفیت رکھتے ہیں، تاہم یہاں کے چپے چپے سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ محض تین نوجوان تھے، ان نوجوانوں کی طرح ملک کے گوشے گوشے میں، شہری علاقوں سے دور دیہاتی اور جنگلی علاقوں تک میں ، نہ جانے کتنے ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، جو مادی ترقیوں اور جدید سہولتوں کو بڑے شہروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں تلاش کرنے کے بجائے ”کچھ عظیم ترین مقاصد“ کے تحت اِن علاقوں میں مقیم ہیں۔
اس وقت عیسائی مشنریز ملک کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی ہیں، یہ جس علاقے میں بھی کام کرتی ہیں، عموماَان کا ایجنڈہ معیاری تعلیم کی فراہمی اور بڑے پیمانے پر خدمت خلق کا کام ہوتا ہے۔ ان سرگرمیوں کے ذریعہ فی الواقع وہ اپنے حقیقی مشن کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ یہ مشن اپنی تہذیب کا فروغ اوراپنے مذہب کی اشاعت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ مشنریاں اپنے مقاصد میں بہت حد تک کامیاب ہیں، تعلیم اور خدمت خلق کے میدان میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اپنی تہذیب کے فروغ اور مذہب کی اشاعت میں بھی یہ بڑی حد تک کامیاب ہیں۔
 عیسائی مشنریز کی جانب سے اس سخت اور صبر آزماجدوجہد پر طرح طرح کے تبصرے سننے اور پڑھنے کوملتے ہیں۔’ تعلیم اور خدمت خلق کے نام پر یہ مشنریز نئی نسل کو تباہی کی طرف لے جارہی ہیں‘۔ ’مغربی تہذیب کی جانب سے زبردست یلغار ہے، اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے‘۔ ’ملک کی غربت اور بدحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائی مذہب کے فروغ کا کام کیا جارہا ہے‘، وغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کا ردعمل یکسر منفی سوچ کا نتیجہ ہے، اس سے سماج میں شکایت کا مزاج تو پروان چڑھ سکتا ہے، تاہم کام کرنے کا جذبہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ کام کرنے والوں کے یہاں شکوہ وشکایت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ درحقیقت یہ دنیا کسی کی بھی نہیں ہے اور سب کی ہے۔ کسی کی نہیں ہے کیونکہ یہاں کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے فرد کو اپنے فکر اور عقیدے کو زبردستی ماننے پر مجبور کردے، اور سب کی ہے کیونکہ ہر کسی کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے فکر اور عقیدے کی اشاعت اور فروغ کے لیے جائز وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے میدانِ عمل میں جدوجہد کرے۔
آج ملت اسلامیہ ہند اور اس کے مختلف اداروں کا اس پہلو سے بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ان کے پاس بھی کوئی مشن ہے۔ کیا ملت کے اداروں (بالخصوص تعلیمی ، خواہ دینی ہوں یا عصری) میں اس پہلو سے کسی قسم کی یک جہتی پائی جاتی ہے کہ وہ ایک مشن کے علمبردار، یا اس کا حصہ ہیں۔ کیا اِن تعلیمی اداروں میں آنے والے طلبہ اپنی عمر کے سالہاسال گزارنے کے بعد بھی کسی مشن کے حامل بن پاتے ہیں۔ ملت کی تنظیموں اور جماعتوں کے سلسلے میں بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا اُن کے پاس سماج اور سماجی مسائل کے سلسلے میں کوئی واضح اور مثبت ایجنڈہ موجود ہے۔ کیا ملت اسلامیہ ہند کے پاس اپنی تہذیب واقدار اور اپنے مذہب کے فروغ واشاعت کے لیے بھی کوئی پروگرام پایا جاتا ہے۔ کیا ملت اسلامیہ کی موجودہ صورتحال اور اس کی مجموعی سرگرمیاں اس کے منصب ِامامت کے ساتھ کسی بھی طرح میل کھاتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات ہیں، جو اس ذیل میں سامنے آتے ہیں۔

 اس جائزہ کا کام کسی بھی سطح پر کیا جائے، عام افراد ملت کے درمیان، یا ملت کے مختلف اداروں اور تنظیموں کے درمیان، اس کے نتیجے میں بہت ہی افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ بے مقصدیت کا آغاز فردِ ملت سے ہوتا ہے، اور پھر عام معاشرے کے ساتھ ساتھ بحیثیت مجموعی پوری ملی قیادت اس کی زد میں آجاتی ہے۔
ملک کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں۔ انتخابات 2014 کے نتائج منظرعام پر آچکے ہیں۔ بی جے پی نے اس موقع پر تاریخی کامیابی درج کی ہے، جبکہ کانگریس کو غیرمعمولی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر مختلف قسم کے تجزئیے سامنے آرہے ہیں، جن میں اس فتح وشکست کے اسباب وعوامل پر گفتگو کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ بھی زیر بحث ہے۔ ضرورت ہے کہ اس موقع پر ملت کی موجودہ صورتحال اور ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں اس کے مطلوبہ کردار کے تعلق سے کھل کر گفتگو کی جائے۔ مواقع کی ایک وسیع دنیا ہے ، جو آج بھی منصب امامت کا صحیح شعور رکھنے والوں کی منتظر ہے، لیکن یہ انتظار کب تک جاری رہے گا، نہیں معلوم۔   

کالم نگار ماہنامہ رفیق منزل وسہ ماہی حیات نور کے مد یر ہیں
بشکریہ :-  سہ ماہی مجلہ حیات نور بلریا گنج  اتر پر دیش




0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔