گزشتہ دنوں مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور لال کرشن اڈوانی نے
گورکھپور کے مہنتھ اویدھ ناتھ کے انتقال پر اپنے تعزیتی پیغام میں میڈیا کے افراد
سے گفتگو کے دوران مشترکہ بیان جاری کر کے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ بابری مسجد
کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر ضرور ہو گی نیز مہنتھ اویدھ ناتھ کے خوابوں کو پورا
کیا جائے گا۔ حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر کا یہ کہنا کہ مہنت اویدھ ناتھ کے خوابوں
کی تکمیل ضرور ہو گی یہ امن دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں تو اور کیا ہے۔
مینکا گاندھی
اور ساکشی مہاراج کے مسلم دشمنی پر مبنی تازہ بیانات کس جانب اشارہ کرتے ہیں؟ یہ
وہی ساکشی مہاراج ہیں جن پر بابری مسجد کی انہدام کا مقدمہ درج ہے اور کچھ عرصہ
قبل سماجوادی پارٹی کے دامن میں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی سماجوادی پارٹی نے
ساکشی مہاراج کو راجیہ سبھا کا رکنیت سے بھی نوازا تھا اب پھر اپنے پرانے گھر لوٹ
آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے، بی جے
پی کی ہی ایک اور خاتوں وزیر مینکا گاندھی جنھوں نے خود کو جانوروں کے تحفظ کے لیے
متعارف کرا رکھا ہے مسلم دشمنی میں انہیں ہندوستان کا گوشت کے بین الاقوامی بازار
میں سب سے بڑے برآمداتی ملک کے طور پر ابھرنے پر اعتراض ہے ایک نیا پینترا کھیلتے
ہوئے اپنے ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان میں کہا ہے کہ ملک میں گوشت کی تجارت
سے آنے والی آمدنی سے دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ یہ بیان دیتے وقت
شاید وہ اپنے وزیر اعظم کا وہ بیان بھول گئیں جس میں انہوں نے ملک کی عوام سے کہا
معاشی ترقی میں بھرپور شمولیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں پوری کوشش کرنی
چاہیے کہ ایک دن ایسا آئے کہ عالمی منڈی میں پائے جانے والے ہر سامان پر ہندوستانی
مہر ثبت ہو۔ ان کے اس بیان پر خود سرکار کو نوٹس لینا چاہئے کیونکہ ایک طرف تو
وزیر اعظم اپنے غیر ملکی دوروں میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی بھرپور کوشش کر
رہے ہیں وہیں دوسری جانب ان کی کابینہ میں ایسے وزراء ہیں جو ان کے ترقی کے تمام
تر منصوبوں پر پانی پھیرنے کا کام کر رہے ہیں۔
پائیدار معاشی
ترقی کے لیے ملک میں امن و امان کی فضا کو آئندہ دس برس تک برقرار رکھنے کی اپیل
وزیر اعظم بہت پہلے ہی کر چکے ہیں۔ البتہ اس پہلو پر الگ سے بحث درکار ہے کہ صرف
دس برس تک ہی تنازعات سے علیحدگی اختیار کرنے کی بات وزیر اعظم نے کیوں کی؟ تشویش
ناک بات یہ ہے کہ آئے دن وزیر اعظم کی اپیل کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور وہ
خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے کی یہ کو شش کوئی اور
نہیں بلکہ آر ایس ایس اور اس کی ہم خیال حلیف سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں سے وابستہ
افراد ہی کر رہے ہیں۔ بھلا بتائیں کہ ایسے حالات میں ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی کا
وہ خواب جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے دیکھا ہے کیسے پورا ہو گا۔ وزیر اعظم نے
آئندہ دس برس تک تنازعات سے دور رہنے کی بات کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ نت نئے
تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ وزیر اعظم اپنے اعلان کے مطابق 125 کروڑ لوگوں
کی نمائندہ حکومت ہونے کا عملی ثبوت دیں اور وقت رہتے ایسے امن اور ترقی کے دشمن
عناصر کی زبانوں کو لگام دیں۔ ان سے باز پرس کی جائے، ورنہ امن و امان کی بحالی
اور خوش حالی کا خواب کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔