حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

بدھ، 30 مئی، 2012

کیا اس دنیا کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے؟

خبر ہے کہ ان دنوں امریکہ میں بھکاریوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے، جوئے کے اڈوں کی رونق غائب ہوتی جارہی ہے اور ملک گیر سطح پر ”وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو“ تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں سرماےہ دارانہ نظام کے قائد کا کردار ادا کرنے والا امریکہ معاشی بحران کے دلدل میں پھنس چکا ہے نیزچہار جانب سے موجودہ نظام کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہےں۔ امریکہ کے تیزی سے بدلتے نظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کل آبادی کے صرف بیس فیصد حصے کی تمام وسائل پر اجارہ داری ہے، ایک تازہ جائزے کے مطابق چودہ اعشارےہ پانچ فیصد امریکیوں کو اشیائے ضرورےہ کی فراہمی میں سخت دشواریوں کا سامنا ہے۔ اسی طرح تقریباً پانچ کروڑ لوگوں کے پاس صحت کا کوئی بیمہ نہیں ہے جب کہ امریکہ میں انشورنس کے بغیر صحت مند زندگی کا تصور نہیں کیاجاتا، اور چار کروڑ بیس لاکھ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ےہ تعداد امریکہ کی کل آبادی کا ساتواں حصہ ہے۔ وہیں دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے پاس امریکہ کے کل سرمائے کا ۸۵ فیصد ہے اور اس طبقے کی تعداد محض بیس فیصد ہے۔ سرماےہ دارانہ نظام کے  لڑکھڑانے کی اصل وجہ ےہی ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے سبب ہی اس طرح کے دشوار گزار حالات پیدا ہوئے ہیں۔ اس لئے معاشی اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے ، ماہرین کا خیال ہے کہ ”اکوپائی وال اسٹریٹ“ جیسی تحریک ایک نہ ایک دن ضرور نگ لاکر رہے گی۔ اور تب ےہ صورت حال اعلیٰ طبقے کے لئے دشواری پیدا کردے گی
انتشار کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا جائے۔ لیکن ےہ کس طرح ہو؟ اس کے لئے موجودہ نظام سے نکل کر سوچنا ہوگا جس کے لئے امریکہ فی الحال تیار نظر نہیں آتا۔ فرانس میں نکولس سرکوزی دوسال قبل تک مقبول عام تھے۔ لیکن اس وقت وہ اقتدار سے بے دخل ہوچکے ہیں ان کی اسلام اور مسلم مخالف پالیسی بھی انہیں دوبارہ قصر صدارت تک نہیں پہنچاسکی ملک کی باگ ڈوراس وقت سوشلسٹ رہنما فرانسواں اولاند کے ہاتھوں میں ہے لیکن معاشی طور پر بدحال ملک کو سنبھالنا ان کے لئے بھی کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اُبھرتی ہوئی معیشت چین ہے۔ ۲۰۱۰ءمیںعالمی معاشی ترقی میں ۱۹فیصدی حصے داری ادا کرنے والا ےہ ملک اب صرف چھ فیصد پر آگیا ہے۔ خود ہمارے ملک میں ایف ڈی آئی کی صورت حال بہت خراب ہے۔ یونان میں سیاسی ہلچل کے بعد پوروزون کی بگڑی صورتحال نے ہندوستانی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اور فوری طور پر سرکار نے کفایت شعاری کا اعلان کیاہے۔ نیزملک کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے مشورے دےے جارہے ہیں حتی کہ سرکار کو پارلیمنٹ میں بیان دینا پڑا ہے ۔ ۲۰۰۸ءکے معاشی بحران نے سرماےہ دارانہ نظام کے چہرے سے سودی نظام معیشت کا نقاب نوچ دیا ہے کہ آخر چند لوگوں کی غلطیوں کی سزا پوری دنیا کو کیوں بھگتنا پڑرہی ہے؟ اس لئے چہار جانب سے سوالات امڈ رہے ہیں کہ اب اگر دوسری مرتبہ دنیا معاشی بحران سے دوچار ہوتی ہے تو سرماےہ دارانہ نظام کے ےہ علمبردار دنیا کو کیا جواب دیں گے؟ ایسے میں ہر خاص وعام کے ذہن میں ےہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کیا اس دنیا کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے؟

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔