حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 1 جون، 2012

عالمی یوم ترک تمباکو، چند توجہ طلب پہلو

آج " ترک تمباکو" کا عالمی دن ہے، یہ دن ہر برس 31 مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم ترک تمباکو کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن یہ عہد کیا جاتا ہے کہ تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے عوامی بیداری کے ساتھ ساتھ سخت قوانین بنا کر اس پر روک لگانے کی کوشش کی جائے گی اور عالمی صحت تنظیم ڈبلیو ایچ او اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے تمام دنیا کے ممالک کے لئے راہنما خطوط جاری کرتی ہے، لیکن بات ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پاتی اور31 مئی کا وہ دن پھر آجاتا ہے نیز اعداد وشمار کی روشنی میں مزید تشویش ناک صورت 
حال سامنے آتی ہے۔

آج کے دن کا موضوع ہے تمباکو کے اشتہارات، افزودگی اور اس کے اسپانسر
شپ پر پابندی عاید کرنا

تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ہر سال تقریبا ساٹھ لاکھ لوگوں کی موت ہوتی ہے. عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا کے ممالک نے اس بارے میں قانون نہیں بنایا تو 2030 تک ہر سال 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی تمباکو کے استعمال کی وجہ سے موت ہونے کا اندیشہ ہے

عالمی  ترک تمباکو دن کا مقصد آنے والی نسلوں کو تمباکو سے صحت کو ہونے والے نقصان سے بچانا ہے. عالمی ادارہ صحت کے مطابق 83 ممالک میں تمباکو کے اشتہارات، افزودگی اور اس کے اسپانسر شپ پر پوری طرح سے پابندی لگا دی گی  ہے. بھارت نے 2003 میں قانون بنا کر تمباکو کی مصنوعات کے استعمال اور تقسیم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا اثر کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ آج بھی  بھارت میں ہر سال تمباکو سے تقریبا 10 لاکھ لوگ اپنی جان گنوا دیتے ہیں

 تمباکو نوشی کے نقصانات کا ادراک دنیا کو سب سے پہلے 1930 میں ہوا، اس کے بعد سے اس مسئلے پر مستقل غورو فکر کا عمل شروع ہوا لیکن قابل تشویش امر یہ ہے کہ 82 سالہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر تمباکو نوشی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں دن پر دن غیرمعمولی اضافہ ہی درج کیا گیا ہے۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی ترک تمباکو کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں سمپوزیم ، سمینار اور ریلیاں نکال کر اس امید کے ساتھ تسلی کرلی  گئی کہ رواں سال میں تمباکو نوشی میں خاطر خواہ کمی ہوجائے گی، جب کہ یہ خام خیالی ہے۔ حالت میں مثبت تبدیلی کی امید اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک بیداری مہم کے ساتھ ساتھ تمباکو سے تیار ہونے والی اشیاکی پیداوار اور اس کی فروخت پر پوری طورپر روک نہ لگائی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن شراب نوشی سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوتے ہیں اور معاشرے میں مجرمانہ کارروائیوں میں شراب کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کے مضمرات کو حکومت بھی تسلیم کرتی ہے، لیکن اس پر پابندی لگانے کے لئے حکومتیں تیار نظر نہیں آتیں۔ اس لیے عملی تدابیر اختیار کیے بغیر صورت حال میںکوئی مثبت تبدیلی کی خواہش کرنا کارعبث ہے نیز مضبوط قوت ارادی کے بغیر تمباکو نوشی پر قابو پانا تقریباناممکن ہے۔ بھارت کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ 5,56,400 افراد 2010 میں تمباکو نوشی کے سبب ہونے والے امراض سے موت کا شکار ہوئے ہیں جن میں36تا69 کی عمر کے افراد کی تعداد 71 فیصد تھی ، اب اس میں اضافہ ہوا ہے ۔

محمد رئیس عرف بابو خاں کا عمل قابل تقلید ہے

آئیے اس بار کے ترک تمباکو کے عالمی دن کے موقع پر ایک ایسے شخص کا تعارف کراتے ہیں، جن کی زندگی عملی نمونہ ہے ان لوگوں کے لئے بھی جو تمباکو نوشی کی دلدل سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ اترپردیش کے ضلع فتح پور کے قصبہ کوٹ کے رہنے والے محمد رئیس عرف بابو خاں نے آج سے کوئی22 برس قبل روزی روٹی کی تلاش میں شہر بھوپال کی طرف رخ کیا۔ کام کی تلاش میں سرگرداں محمد رئیس نے بھوپال کے مضافات میں واقع منڈی دیپ میں ایک سگریٹ بنانے والی کمپنی آئی ٹی سی کے پروڈکشن شعبے میں ملازمت اختیار کرلی۔ بعد میں پروڈکشن آپریٹر کے طورپر کام کرنا شروع کیا۔ گزشتہ18برس سے سگریٹ بنانے کے کام میں مصروف ہیں لیکن کبھی سگریٹ کو اپنے ہونٹوں سے نہیں لگایا۔ جب کہ کمپنی کی جانب سے فری سگریٹ لینے کی باقاعدہ اجازت ہے۔ محمد رئیس اب تک برسٹل سمیت دو سو سے زائد برانڈ کے سگریٹ بنا چکے ہیں۔ کوالٹی ٹیسٹ میں آنے والی دشواریوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرا کوالٹی ٹیسٹ کا طریقہ جداگانہ ہے۔ تمباکو کو ہاتھ لگا کر یہ اندازہ لگ جاتا ہے کہ اس میں نکوٹین کی مقدار کتنی ہے۔
چھتیس سالہ محمد رئیس تعلیم یافتہ تو نہیں ہیں لیکن سگریٹ کی تباہ کاریوں کا انہیں پوری طرح ادراک ہے، ان  حالات میں بھی خود کو سگریٹ نوشی سے بچائے رکھنا کیا کسی چیلنج سے کم ہے؟ ان کا یہ عمل لاکھوں لوگوں کے لئے باعث تقلید ہے جن میں تعلیم یافتہ بھی ہیں اور ناخواندہ بھی۔ ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر اور وکیل بھی گویا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد جو کسی نہ کسی شکل میں تمباکو نوشی کا شکار ہیں، یہاں ان کا ذکر صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ مخالف ماحول میں بھی اگرحوصلہ ہے تو کسی بھی حالت سے نمٹا جاسکتا ہے۔ محمد رئیس کی زندگی کے تجربات ان لوگوں کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں جو تمباکو نوشی کی لعنت سے آزادی چاہتے ہیں بشرطیکہ ان میں مضبوط قوت ارادی ہو۔





0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔