حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعرات، 8 مئی، 2014

قصہ! نریندر مودی کے مشروط انٹر ویوز کا

اگر آپ صحافی ہیں اور نریندر مودی کا انٹرویو لے کرصحافت کے افق پر راتوں رات نمودار ہونا چاہتے ہیں تو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس آپ کو صحافت کے اصول وضوابط سے انحراف کرتے ہوئے اپنے ضمیر کے برخلاف کچھ کام کرنا ہوگا۔ کرنا یہ ہے کہ نریندر مودی کے شعبہ رابطہ عامہ سے رجوع کریں، وہاں سے آپ کو طویل شرائط کی ایک فہرست حاصل ہوگی جس میں درج ہوگا کہ آپ مودی سے یہ چند سوالات نہیں کریں گے۔
 اول یہ کہ 2002 کے گجرات فسادات اور اب آسام کے حالیہ قتل عام کے تعلق سے کوئی سوال نہیں کریں گے، اور طویل عرصے سے تعطل کا شکار ان کی ازدواجی زندگی سے متعلق کوئی سوال ہرگز نہہیں ہونا چاہیے۔ گجرات میں ہونے والے فرضی انکاﺅنٹر س کے بارے میں بھی کچھ نہ پوچھیں، گزشتہ دنوں منظر عام پر آئے خاتون کی جاسوسی معاملے کے تعلق سے کوئی بات نہ کی جائے۔ سوالات ایسے ہوں جن کا جواب مودی بہ آسانی دے سکیں۔
 جن لوگوں نے متذکرہ بالا شرائط پر حامی بھری انہیں ہی مودی سے انٹرویو کا موقع عطا کیا جائے گا۔ لہذاجن لوگوں نے رضامندی ظاہر کی انہیں یہ زریں موقع عنایت کیاگیا۔ اس کا صحیح اندازہ لگاناہوتونریندر مودی کے حالیہ ٹی وی انٹرویوزور ضر وردیکھیں، آپ کی عدالت میں انڈیا ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف رجت شرما مودی کے سامنے کس طرح انکساری اور سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے، ٹی وی چینلو ں کو نیوز فراہم کرنے والی نیوز ایجنسی اے این آئی کی خاتون جرنلسٹ مودی کے سامنے دست بستہ نظر آئیںعالمی سمے چینل کے سید فیصل علی کی دوستانہ "تکرار" انڈیا نیوز کے دیپک چورسیا کی بے چارگی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ،حتیٰ کہ سرکاری چینل دوردرشن بھی مودی کی زد سے نہ بچ سکا ڈی ڈی نیوز پران کا خصوصی انٹرویو نشر کیاگیا۔
 سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ متذکرہ بالا سبھی انٹرویو پہلے سے طے شدہ ہدایات کے مطابق کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی انٹرویو میں مودی کو درمیان ہی میں انٹرویو چھوڑکر چلے جانے کی نوبت پیش نہیں آئی جس طرح سی این این آئی بی این کے سینئر جرنلسٹ کرن تھاپر نے 2007 میں انہیں گجرات فسادات پر گھیرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں مودی نے درمیان ہی میں انٹرویو چھوڑ کر چل دیے تھے ، اس کے علاوہ بھی کچھ اور مواقع پر کم و بیش یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی جس کے پیش نظر نریندرمودی نے باقاعدہ شرائط کی فہرست تیار کروا ئی اور یہ طے کیا کہ میڈیا اگر ان سے بات کرناچاہتا ہے تو اسے ہر حال میں اِن شرائط کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ نریندر مودی جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم بننے کاخواب دیکھ رہے ہیں، جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیے جانے والے میڈیا کے تئیں ان کا یہ رویہ کیوں ہے؟ وہ 2002 سے متعلق سوالات سے وہ اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں؟ بحیثیت وزیراعلیٰ ان کی جوابدہی پر سوالات کیوں نہ کئے جائیں؟ اب تک غیرشادی شدہ ہونے کا ڈھونگ انھوں نے کیوں کیا اور اب اچانک حلف نامے میں بیوی کا نام ظاہر کرکے وہ کیا بتاناچاہتے ہیں ؟ گجرات میں ہو نے والے سلسلے وار فرضی انکاﺅنٹرس کا جواب آخر کون دے گا؟ بھلا بتائیں کہ جوابدہی کے احساس سے عاری ایسے شخص کو ملک کے غیور و باشعور عوام وزیراعظم کی ذمے داری کیوں سو نپیں؟ جس شخص کو خود ان کی پارٹی کی سینئر لیڈر اوما بھارتی ایک عرصہ قبل ہی و ناش پروش کا نام دے چکی ہیں تواسے دوسرے کیوں تسلیم کریں؟
بہرکیف خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ میڈیا کے گمراہ کن پروپگنڈے کو درکنار کرتے ہوئے ملک کے باشعور رائے دہند گان کی غالب اکثریت نے گزشتہ مرحلوں میں جس رخ پر ووٹنگ کی ہے اس کا اندازہ خود نریندر مودی کے حالیہ بیانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی کو اب یہ احساس ہوچلا ہے کہ اترپردیش ، بہار اور مغربی بنگال میں ان کی لہر کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہیں اور اب پریشانی کے عالم میں الیکشن کمیشن کو اس کی ذمے داری اور جوابدہی کا احساس دلا رہے ہیں ، گویا انہیں اب ناکامی کا شدید احساس ستانے لگا ہے۔

1 تبصرہ کریں:

noor نے لکھا ہے کہ

ًًٰ
میں ذیادہ تو نیوز وغیرہ دیکھتا نہیں مگر۔ رجت شرما میرے چند پسندیدہ اژشخاص میں سے تھی اور ان سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔ میری نگا ہ میں ان کی قدر و عزت تھی جو اس انٹرویو کے بعد خاک ہو گئی ۔ ۔

اور
جو شخص اپنی بیوی سے وفا نہیں کر سکا وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خیر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہےکیا ۔ ۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔