حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

جمعہ، 9 مئی، 2014

گاﺅں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں-- پھر بھی ان کا لمس مخملی کیوں ہے؟



ا نشا ئیہ
ٹوٹی سڑک
گاﺅں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں
پھر بھی ان کا لمس مخملی کیوں ہے؟


فیس بک پر مندرجہ بالا شعر پڑھ کرمیرے ذہن کے دریچوں میں اپنے قصبے کی ٹوٹی پھوٹی سڑک کا منظر تازہ ہو گیا ، ابھی کل کی ہی بات ہے گاﺅں سے آئے ایک دوست سے اس کا حال دریافت کرنے کے بعد میں نے دوسرا سوال یہی کیا " اور بتاو بھائی علاقے کی اہم شاہراہ کی صورت حال کیا ہے ؟ اس نے ہنس کر جواب دیا اس کی خستہ حالی اب تو ہمارے علاقے کی مستقل پہچان بن گئی ہے۔ یہ سن کر جو تکلیف ہوئی اس کا بھی عجیب لطف تھا کیونکہ مجھے اس سڑک کو دیکھے دو برس گزر چکے ہیں جس پر 20برس سفر کیا ہے سمریاواں سے بستی کے درمیان پائے جانے والے ہر چھوٹے بڑے گڈھے سے خوب شناسائی تھی ، اگر رات میں موٹر سائیکل کی لائٹ جواب دے دے اور اندھیری رات ہو تب بھی ہم لانگ جمپ ، ہائی جمپ کا لطف اٹھاتے اپنی منزل پر بحفاظت پہونچ جاتے ۔ نہ چور اچکوں کا ڈر اور نہ بے ہنگم ٹریفک کا خطرہ، بخدا بائیک چلانے کا فطری لطف تو بس اسی سڑک پرآتا تھا ، جب ہم بستی شہراے پی این ڈگری کالج کے لیے نکلتے تھے وہ بھی کیا عجب دن تھے روزانہ کا یہی معمول تھا فجر سے قبل والد صاحب نماز کے لیے جگا دیتے ، والد صاحب کے رعب کا یہ عالم تھا کہ ہر حال میں بستر چھوڑ نا لازم تھا کیا مجال کہ بستر پر پڑے رہتے نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد کالج جانے کی تیاری میں جلدی جلدی ناشتہ سے فارغ ہو کربائیک لیکر سر پٹ دوڑاتے بستی کے لیے نکل پڑتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مرضی خدا حالات کچھ اس طرح بدلے ہماری شامت آئی اور میدان صحافت میں پنجہ آزمائی کرنے 2006میں دہلی آپہونچے ، یہاں چہار جانب دودھیا روشنی سے جگ مگاتی کشادہ سڑ کیں ، سڑ کوں کے کنارے سر سبز و شاداب خوشنما درخت ، خوبصورت پھول پودے ،عوام کو تحفظ فراہم کرانے والے پولیس دستوں کی گشت دیکھ کر راحت کی سانس لی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اب ہمیں شام کو جلد لوٹنے کی فکر نہیں ، گاﺅں کی سنسان سڑک کا سناٹااب ہمارا پیچھا نہیں کرے گا، یہاں اب بائیک کے شاکر کی مرمت بھی جلدی جلدی نہیں کرانی پڑے گی۔ لیکن یہ خوشنما احساس بہت جلد ہی کافور ہو گیا ، غیر محفوظ ڈرائیونگ ،بادلوں کی طرح منڈلاتے خطرات، سر راہ ہونے والے آبرو ریزی اور رہزنی کے دل دوز واقعات دیکھ کر عدم تحفظ کا احسا س اس قدر طاری ہوا کہ دل پکار اٹھا کہ اف! یہاں توزندگی انتہائی پر خطر ہو گئی ہے ، نہ جانے کب کوئی بائیک سوار یا ڈی ٹی سی کی بس اچانک آگے یا پیچھے سے ٹکر مار کر رفو چکر ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب دلی کی بد نام زمانہ بس سروس"بلیو لائن"کے خوف ناک دور کا خاتمہ ہوچکا ہے ، لیکن یہ غیر تربیت یافتہ ڈی ٹی سی کے " ہریانوی ماڈل" ڈرائیور بھی کیا کم خطر ناک ہیں؟ اب کسی حدتک تو بس ایکسیڈینٹ کے خطرات کم ہوئے ہیں لیکن وقت پر منزل مقصود پر پہونچنے کی کوئی گارنٹی اب بھی نہیں ہے کیونکہ اخلاقی اور فنی تربیت سے عاری ڈی ٹی سی بس کا عملہ نہ جانے کب کسی مسافر سے بے جا بحث ومباحثہ پر اتر آئے اور نوبت مارپیٹ کی آپڑے اور آپ کو اپنا سفر درمیان میں ہی ترک کرنا پڑے اسی لیے مجھے آج بھی اپنے قصبے کی وہ ٹوٹی سڑک یادوں کے جھروکوں سے روزا نہ ایک بار ضروردستک دیتی ہے، لیکن اب یہا ں سے نکلنے کی بظاہرکوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔