
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال2009 اور 2011 کے
درمیان تقریباً ایک لاکھ77ہزار 660بچے ملک بھر میں
لاپتہ ہوئے۔ ان میں64 فیصد
بالغ لڑکیاں ہیں۔ 2011
اور 2012 میں غیر سرکاری تنظیموں کی
مدد سے 1532 بچوں
کو اسمگلنگ کرنے والے گروہوں سے بچایا گیا ہے۔ یہ تعداد غائب ہونے والے بچوں کی
تعداد سے تناسب کے اعتبار سے کافی کم ہے۔ متذکرہ بالا رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ
صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لئے ملک میں موثر
قانون بھی ہے لیکن قانون کے نفاذ میں اتنی کمزوریاں ہیں کہ ملزمین قانون کی گرفت
سے نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ قانون میں اس قدر خامیاں ہیں کہ انسانی
اسمگلنگ پر مکمل روک لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ بعض اوقات تو اِسی طرح کے واقعات
میں کون سی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اِس کی پوری جانکاری پولیس کو بھی نہیں
ہوتی۔
وزارت داخلہ کے تحت چلنے والے اداروں میں انسانوں کی
اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے 225یونٹ کام کررہی ہیں لیکن حالات دن بدن بدتر ہی ہوتے
جارہے ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے 2011سے اب تک ملک بھر میں چار ہزار سے زائد بچاؤ مہم
چلائی جاچکی ہیں۔ جس میں صرف تیرہ ہزار742 کوہی بچایاجاسکا ہے۔ حالات کے تجزے سے یہ بات ظاہر
ہوتی ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود سرکار یں اِس لعنت سے نمٹنے می پوری طرح
ناکام رہی ہیں۔ درجنوں اداروں کے قیام کے باوجود بچوں کی اسمگلنگ کا یہ
سلسلہ دراز ہوتاجارہا ہے جب کہ ملک میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنےکے لئے باقاعدہ
ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تمام کوششیں مضبوط قوت ارادی نہ ہونے کے سبب نتیجے
کے لحاظ سے کوری ہیں۔ ایجنسیوں کے مابین رابطے کی بے حد کمی ہے۔ جب تک قانون
کے نفاذ کو یقینی بنانے اور کمزوریوں کو دُور کرنے پر زور نہیں دیاجاجائے گا۔
حالات کی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ مرکزکی نئی سرکار کو اس جانب خصوصی توجہ
دینے کی ضرورت ہے کہ ہر برس سیکڑوں نونہانوں کی زندگیوں کو بچانے کے لئے کیا
اقدامات کئے جائیں۔
نوٹ:-اس رپورٹ پر براہ کرم نیچے دیے گئے باکس میں اپنی رائے دیں
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔