حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

ہفتہ، 9 اگست، 2014

مسٹر اوباما ! بھلا بتائیں کہ آ خر بربریت کیا ہے؟

 رانیہ مصری ایک امریکی پروفیسر ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے شہر ٹیکساس میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے کو خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما سے ڈھیروں سوالات کیے اور کہا کہ مسٹر اوباما! بربریت کیا ہے؟ انہوں نے یہ سوال امریکی صدر کے اس بیان پرکیا ہے جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوجی کافلسطینیوں کے ذریعے اغوا کیاجانا بربریت ہے۔ رانیہ کہتی ہیں کہ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ اوراس پرمسلسل دراندازی کرنے والے اسرائیلی فوجی کواغوا کیاجانا اگر بربریت ہے تو اسکولوں ،اسپتالوں ، مساجد پر اسرائیلی حملہ کیا ہے؟ جس میں اب تک 1800 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں کہ مسٹر اوباما میں آپ کو بتاتی ہوں بربریت کیا ہے،ستّر سے زائد فلسطینی خاندانوں کوغائب کردینا بربریت ہے۔ غزہ میں روزانہ سیکڑوں معصوم بچوں کا قتل بربریت ہے، اسپتالوں پر بم باری بربریت ہے۔
بربریت یہ ہے کہ آج غزہ کے 9میں سے چھ اسپتال حملوں کے شکار ہونے کے بعد بند پڑگئے ہیں۔اے امریکی صدر ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کیا غزہ میں جرنلسٹوں کو نشانہ بنایا جانا بربریت نہیں ہے۔ کیا فلسطین کی زمین کے چھوٹے سے حصے غزہ پردن رات ہزاروں کی تعداد میں بموں اور میزائل کی بارش ٹینکوں کی یلغار بربریت کے زمرے میں نہیں آتی ؟۔ غزہ کی اقتصادیات کو صہیونی پالیسی کے ذریعے ختم کرنے کا عمل کیا ہے ، 2005 سے مسلسل غزہ کا محاصرے کو کیا نام دیں گے ؟ فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کو کیاکہیں گے؟ مسٹر اوباما اب بتائیں کہ آ خر بربریت کیا ہے؟ یہ اور اس طرح کے سوالات کی طویل فہرست ہے جو خاتون پروفیسر نے امریکی صدر اوباما کی غیرت کو للکارتے ہوئے کیا ہے۔ اورامریکہ سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والی ہر طرح کی امداد کو فوری طور پر بند کریں، اور فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض اسرائیل کو فوری طور پر روکنے کے لئے آگےٓ آئیں۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے علمبردار آگے آئیں اور اسرائیل کو بین الاقوامی فوج داری عدالت میں کھڑا کرنے کی پہل کریں، زمین پر انصاف قائم کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
رانیہ مصری کی تقریر کا ویڈیو دیکھیں
قابل غور بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا احساسات وسوالات صرف رانیہ مصری کے ہی نہیں ہیں بلکہ یہی سوالات اِس وقت دنیا بھر میں انصاف پسند حلقے اپنی حکومتوں اور عالمی طاقتوں سے کررہے ہیں، ان مسلم حکمرانوں سے کررہے ہیں جو تباہی کے بعد فلسطینیوں کی  باز آباد کاری کے لیے ان کی مالی مدد تو کرتے ہیں لیکن ان میں فلسطین کی  فوجی امداد کرنے کی جرات نہیں ہے ، ان بین الاقوامی اداروں سےبھی کر رہے ہیں جنہوں نے جنگ میں زخمیوں اور مہلوکین کو اسپتال پہنچانے کے لئے اپنی ایمبولینس ٹیموں کو توغزہ میں تعینات کررکھا ہے لیکن ان کی حقیقی مدد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حماس کو ختم کرنے کے  اسرائیلی منصوبے کو انجام تک پہنچانے میں پس پردہ مدد کررہے ہیں۔
ہمیشہ اسرائیل کا دفاع کرنے والے امریکی صدر بارک اوباما ایک جانب ملیشیا ایئرلائنس کے مسافر بردار جہاز کو مار گرانے والوں کو سزا دلانے تک چین سے نہ بیٹھنے کی بات کرتے ہیں لیکن انہیں فلسطینی عوام کی جان کی کوئی پروا نہیں ہے بلکہ ڈھٹائی کی حد تو یہ ہے آگے بڑھ کر اسرائیل کی ہر ممکن مدد کا اعلان کرتے ہیں اور اس درمیان امریکی سینیٹ اسرائیل کی مالی و عسکری مدد کا اعلان کرتی ہے فلسطین کی سرحد سے متصل آئرن ڈوم میزائل نظام نصب کرنے کے لیے اسرائیل کو 225ملین ڈالرامدا کو منظوری دی جاتی ہے۔ اس مدد کا جواز فراہم کرنے کے لیے امریکی سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن باربرا میکووالسکی کہتی ہیں کہ اسرائیل ہمارا اہم اتحادی ملک ہے اور اس وقت مشکل گھڑی میں اسرائیل کو ہماری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ امریکی صدر بھلا بتائیں کہ انصاف کا یہ دوہرا پیمانہ کیوں ہے ؟ ایک طرف توانسانی جا نوں کے احترام میں 193 لوگوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکی صدر انتہائی پرعزم اور کمربستہ ہیں اور دوسری جانب فلسطینی عوام کی نسل کشی کرنے والے اسرائیل کی کھلی دہشت گردی و جارحیت کا دفاع کرنے کا بھی بیڑا بھی اٹھارکھا ہے۔
انتہائی تشویش ناک امر یہ ہے کہ اسرائیل کا بے جواز فلسطین پر بموں کی بارش امریکہ کو نظر نہیں آرہی ہے، البتہ فلسطین کی جانب سے اپنے دفاع کے لیے داغے جانے والے راکٹوں کو لے کر امریکہ کافی فکرمند ہے ، یہ سب کچھ دن کے اجالے میں علانیہ امریکہ اور اس کے حلیف کررہے ہیں اور خطے کے عرب حکمراں عرب کے ریگستانوں میں شطر مرغ کی طرح اپنی گردن ڈالے اپنی باری کے انتظار میں خاموش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بھلا بتائیں  کہ  آخر ان کی اِس مجرمانہ خاموشی کاراز کیا ہے؟ خود ہمارا ملک ہندوستان غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھل کر آواز بلند کرنے میں پس و پیش کا شکار سے کیوں ہے؟  جب کہ فلسطین کی حمایت ہماری خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے ہندوستان نے آزادی سے قبل جولائی 1936 میں الٰہ آباد میں فلسطین کانفرنس بلاکر اسرائیل کے قیام کی سخت لفظوں میں مذمت کی تھی۔
اسرائیل نواز حکومتوں کا یہ کہنا کہ حماس کے حملوں سے بچنے کے لئے اسرائیل کو اپنے دفاع میں کارروائی کرنے کا پورا حق ہے انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ اب تک کی پوری کارروائی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کی کارروائی میں اب تک صرف تین شہری ہلاک ہوئے ہیں، ان کا نشانہ اسرائیلی شہری نہیں بلکہ اسرائیلی فوجیں ہیں جب کہ اسرائیل نے ابتک 1800 سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہیں۔ مہلوکین میں 450بچے شامل ہیں۔ زخمیوں کی مجموعی تعداد9547بتائی جارہی ہے جس میں 2878 بچے شامل ہیں جب کہ حماس کی دفاعی کارروائی میں تین شہری اور 64اسرائیلی فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ دنیا بھر کو امن وامان قائم رکھنے کا سبق پڑھانے والا امریکہ پہلے ہی اسرائیل کی اِس جارحانہ کارروائی کی کھلی تائید کرکے مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم قررار دینے کا قبیح فعل انجام دے چکا ہے۔ ایک انتہائی قابل غو رپہلواس جنگ کی تازہ صورتحال کے تجزیے یہ سامنے آیا ہے کہ غیر تربیت یافتہ اور روایتی اسلحوں والے حماس کے راکٹوں کا نشا نہ صرف اسرائیلی فوج بن رہی ہے جبکہ دوسری جانب دنیا کی چوتھی سب سے مضبوط اسرائیلی فوج ہے جو ہر طرح کے جدید اسلحوں اور آلات سے مسلح ہے حماس کو ختم کرنے کے نام پر چن چن کر عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، اور امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والاامریکی صدر ظالم کو مظلوم اورمظلوم کو ظالم قرار دینے میں اپنی ساری توانائی ضائع کر رہا ہے۔

0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔