حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

ہفتہ، 11 اکتوبر، 2014

کیا ہم نےنوبل انعام کا پیغام سنا؟


تحریر: سینئر صحافی احمد جاوید کی ہے******

جمعہ کواسٹاک ہوم سے خبر آئی کہ رائل سویڈش اکیڈمی نے اس بارامن کا نوبل انعام ’بچپن بچاؤ آندولن‘ کے بانی ومحرک کیلاش ستیارتھی اور اپنی جان خطرے میں ڈال کرلڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنےوالی مینگورہ(سوات) کی مشہور پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے تو میرے کانوں میں ندافاضلی کے یہ مصرعے کسی بندگنبد میں اذان کی بازگشت کی طرح گونجنے لگے :

آنکھیں تیری چاند اور سورج،تیرا خواب ہمالہ
ملالہ ملالہ ملالہ ملالہ
وقت کی پیشانی پہ اپنا نام جڑا ہے تو نے
جھوٹے مکتب میں سچا قرآن پڑھا ہے تو نے
اندھیاروں سے لڑنے والی ،تیرا نام اجالا
ملالہ ملالہ ملالہ ملالہ
اسکولوں کو جاتے رستے اونچے نیچے تھے
جنگل کے خونخوار درندے آگے پیچھے تھے
مکہ کا اک اُمیّ تیرے لفظو ں کا رکھوالا
ملالہ ملالہ ملالہ ملالہ
تجھ پر چلنے والی گولی ہر دھڑکن میں ہے
ایک ہی چہرہ ہے تو لیکن ہر درپن میں ہے
تیرے رستے کا ہمرا ہی نیلی چھتری والا
ملالہ ملالہ ملالہ ملالہ
اسی کے ساتھ کیلاش ستیارتھی کے وہ الفاظ بھی کانوں میں گونج رہے ہیں جو پچھلے دنوں انہوں نے پٹنہ میں ایک اتفاقی ملاقات کے دوران کہے تھے۔ وہ اس دن سیتامڑھی کے اس گاؤں سے واپس آئے تھے جہاںکے رہنے والے ایک لڑکے کو بچپن بچاؤآندولن نے دہلی میں زری کے ایک کارخانے سے رہاکرایاتھا اوراب امتیازعلی چھٹی جماعت میں پڑھ رہاتھا، کلاسیکی موسیقی کادرس بھی لے رہاتھاجس میں اس کی غیرمعمولی دلچسپی تھی اور اس شعبے میںاس کی صلاحیتیں ابھی سے اپنالوہامنوانے لگی تھیں۔کیلاش کہہ رہے تھے کہ اس ملک میں لاکھوں امتیازہیں جن کی آنکھیں بہتر مستقبل کاخواب دیکھنے کے حق سے محروم کردی گئی ہیں، ان کو ایک اچھے کل کاخواب دیکھنے کاحق واپس دلاناہم سب کافرض ہے۔وہ یہ بھی بتارہے تھے کہ امتیازکے گاؤں کی عورتیں کس طرح ان کو دعائیںدے رہی تھیں اور اس گاؤں کی لڑکیوں میں پڑھنے لکھنے کی کیسی شدیدخواہش تھی جوانہوں نے اس دن ان میںدیکھی لیکن اسکول گاؤں سے دورتھا جہاں تک ان لڑکیوں کی رسائی آسان نہیں تھی۔ملالہ اورستیارتھی بلاشبہ ایک ہی رستے کے ہمراہی ہیںاور یہ دونوں جن ملکوں اور معاشروں کی اصلاح کی جدوجہد میںسرگرداں ہیں اور جن کے بھلے کے لیے اپناسب کچھ داؤ پر لگاچکے ہیں ان میں ان کااگرکوئی سچامددگاراور ہمراہی ہے تووہ نیلی چھتری والاہی ہے۔ ملالہ کی طرح ستیارتھی پر بھی جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ستیارتھی کو ہندوستان میں طالبان جیسے کسی انتہاپسند گروہ کا سامنانہیںہے۔ورنہ ان پر ابھی پچھلے دنوں بھی اس وقت حملے ہوئے جب وہ دہلی کے ایک کارخانہ سے بچہ مزدوروں کو رہائی دلانےکے لیے چھاپہ ماری کے دوران موقع پر موجود تھے۔اپنے بچوں کے لیے ہم نے لوگوں کو جانیں جوکھم میں ڈالتے دیکھاسناہے لیکن غیروں اور غیرکے بچوں کے لیے جان کا خطرہ مول لینا آسان نہیں ہوتالیکن قربان جائیے اس جذبہ کے جوان کو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ملک کے دوردرازعلاقوں کے گاؤوں اور شہروں میں لے جاتاہے۔
ستیارتھی اور ملالہ کو نوبل انعام ملنے کااعلان ہواتو آپ کی طرح مجھے بھی خوشی ہوئی کیونکہ اس سے ہماری قوموں کے ماتھے پر نوبل انعام کا ایک تمغہ اور بھی سج گیا لیکن سچ پوچھیے تو میں دیر تک سوچ کے سمندرمیں غوطے کھاتارہا، یہ سوچتا اور اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھتارہاکہ کیا ہمیں اس تمغے پرفخرکرنے کا حق بھی ہے؟کاش ہم آج فخر سے یہ کہنے کی حالت میں ہوتے کہ ہم نے اپنے ان چانداورسورج کی خاطرخواہ قدرکی ہے۔ملالہ کو تو جانے دیجیے ، اسے تو اس کے ہم وطنوں نے اتناتحفظ بھی نہیں دیاکہ وہ وطن میں رہ انصاف ، آزادی، مساوات اورحقوق انسانی کی آوازوں کو تقویت پہنچاتی رہتی، ہم نے بھی کیلاش ستیارتھی کی کونسی ایسی قدر کی جس پر آج سینہ پھلاتے پھریں کہ ہم نے نوبل انعام جیتا ہے۔ یہ حق تو ہمیں اس وقت حاصل ہوتا جب ہم نے ان کونوبل انعام پیش کئے جانے سے پہلے بھارت رتن نہ سہی کوئی پدم ایوارڈ ہی پیش کیا ہوتا۔یہاں توحالت یہ ہے کہ ان کو دنیا کا یہ سب سے بڑااعزازپیش کئے جانے سے پہلے اس کی نہ کسی کو خبر تھی نہ امید،ان کی نامزدگی کے باوجود کہیں کوئی چرچاتک نہ تھی۔ جوچینل اب ان پردن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان کے لال بجھکڑ رپورٹروں اورتجزیہ نگاروں کو بھنک تک نہیں لگی تھی۔

یہ کیلاش ستیارتھی تھے جن کی خدمات کوامریکہ، جرمنی، اٹلی، فرانس اور دوسرے ملکوں نے قدرکی نگاہوں سے دیکھیں، عالمی اعزازات سے سرفرزازکیا، یونیسکو اوریونیسیف جیسی عالمی تنظیموں نے جن کی عزت افزائی کی اور اپنے اجلاس سے خطاب کرایا، یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے اپنے اجلاس میں مدعوکیالیکن ہمیں توجس طرح پاکستان سے آ گے دنیا نظر نہیں آتی اسی طرح تنڈولکر سے آگے کوئی بھارت رتن دکھائی نہیں دیتا،ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہواہے اور ہم نے اپنے اس مزاج کا مظاہرہ صرف کیلاش ستیارتھی کے تعلق سے ہی نہیں کیا، جانےکتنے ستیارتھی ہیں جوہماری اس سوچ کے شکار ہوئے ۔ ہم تو کیلاش پر اس وقت فخر کرسکتے تھے جب ہماری پارلیمنٹ نے بھی کبھی ان کے اعزاز میں اجلاس بلایاہوتا، ہمارے قائدین نےبھی کبھی ان کی باتوں کوسنجیدگی سے لیاہوتا، اب جبکہ سوئڈش اکیڈمی نے ان کی عظمتوں کے تاج میں نوبل انعام کا تمغہ ٹانک دیا ہے توہم اپنے سینے چوڑے کریں یاان کوہاتھوں ہاتھ لیے پھریں ،بات تو جب ہے کہ ہم ان کی سنیں ، ان کے مشن کا حصہ بنیں اورہم میں سے ہر شخص ان ہی کی طرح عہدجدیدکی غلامیوں سے انسانوں کی آزادی کو اپنا نصب العین بنالے، بچہ مزدوری کے خاتمہ اور بندھوامزدوروں کی نجات کے لیے دن رات ایک کردے اور ہربچہ کو اس کی سلب کردہ آزادی ،تعلیم اورکھیل کود کا حق واپس دلانے میں اپناواجب کردار اداکرے ۔

عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت اسٹاک ہوم میں نوبل کمیٹی کے سربراہ طوربیان جاگلاند کیلاش اور ملالہ کے لیےامن کے نوبل انعام کا اعلان کررہے تھے، بھارت اور پاکستان میں سرحد پر کئی دنوں سے کشیدگی جاری تھی اور دونوں ملک ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہےتھے۔لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری تھا جس میں ۱۹؍افراد ہلاک ہو چکے تھے۔اورہمارے وزیر دفاع ارون جیٹلی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر حملے جاری رہے تو بھارت انھیں پاکستان کے لیے ’ناقابلِ برداشت‘ بنا دے گا۔کم و بیش اسی قسم کے جوابی بیانات سرحدکے اس پارسے بھی آرہے تھے۔ جاگلاند نے جب امن کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ نوبل کمیٹی اس کو ایک اہم نکتہ تصور کرتی ہے کہ ان میں سے ایک ہندوستانی ہے اور ایک پاکستانی، ایک ہندوہے اوردوسرامسلمان اور دونوں ایک مشترکہ جدوجہدمیں شامل ہیں جو تعلیم کے فروغ اور انتہاپسندی کے خاتمہ کی جدوجہدہے تو مجھے محسوس ہواکہ یہ نوبل انعام برصغیر کے ہندو اور مسلمانوں کے لیے اعزازنہیں ، ان کے منھ پر مغرب کا طمانچہ ہے جو اپنے اصل دشمنوں سے غافل ہیں اور ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کر رہے ہیں، اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے اصل اور مشترکہ دشمن کوئی اور نہیں ان کی اپنی جہالت، پسماندگی، غریبی ، افلاس، استحصال اور انتہاپسندی ہیں جن سے یہ بے چارے مٹھی بھر کیلاش اور ملالےلڑرہے ہیں۔کیا ہم اب بھی اس تلخ حقیقت کوسمجھنے کے لیے تیار ہیں جوپیغام نوبل کمیٹی نے دیا ہے اور کیا ہم اب بھی اپنے گریبانوںمیں منھ ڈالیں گے؟
مضمون نگار روزنامہ انقلاب  پٹنہ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔


0 تبصرہ کریں:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔