عمیر کوٹی ندوی##
ملک کے بدلے ہوئے سیاسی حالات، اس کے اسباب ووجوہات، نتائج ، اندیشے وامکانات
پر گفتگو ہر خاص وعام کی زبان پر ہے، زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اہل اقتدار نے جو
اشارے دیئے ہیں، ان سے ملک کے شہریوں میں امید نظرآئی ہے تو بعض اقدامات خواہ فرقہ
پرستی کے تعلق سے ہوں کہ اپنے نظریات کے فروغ کے تعلق سے، متنازعہ ایشوز کو ہوا دینے
سے تعلق رکھتے ہوں کہ کمر توڑ گرانی میں مزید اضافہ سے بہرحال ان حالات نے ملک کے سنجیدہ
شہریوں کی فکر مندی میں اضافہ کردیا ہے۔ گرانی وبدعنوانی جیسے مشترکہ مسائل میں فکر
مندی بھی مشترک ہے لیکن وہ مسائل جو خاص طور پر ملک کی بڑی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں
ان کے سلسلے میں ملک کے انصاف پسند اور سنجیدہ طبقہ کو ہمدردی ضرور ہے لیکن فکر مندی
کی وہ سطح نہیں ہے جو درکار ہے۔ ایسے میں مسلمانان ہند کاجملہ امورپر چاہے وہ ان سے
متعلق ہوں کہ سماج وملک سے تعلق رکھتے ہوں،ان کا تعلق ملک میں جمہوری اقدار اور سیکولر
شبیہ کے تحفظ سے ہو یا امن و امان اور عدل وانصاف کی بقا وقیام سے ہو یک گونہ فکر مند
ہونا لائق ستائش ہے۔ ماضی کی غلطیوں کے باوجود ان کا اپنے حال ومستقبل کے سلسلے میں
فکر مند ہونا اورآئندہ کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنے کے تئیں باہم گفت وشنید کرنا خوش
آئند قدم ہے۔ مسلمانانِ ہند کے لئے اپنے لئے کوئی بھی لائحہ عمل مرتب کرنے سے پہلے
ذیل کے نکات پر توجہ دینا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ حال ومستقبل میں مسلمانان ہند کو پیش
آمدہ یا ان سے روبروہونے والے مسائل کو چار بنیادی زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(1)سماجی امور: اہل سیاست سے ربط وتعلق اور مثبت وتعمیری پیش رفت (2)فرقہ پرستی (3)
خوداحتسابی (4) ملی فریضہ کی ادائیگی۔ ذیل کی سطور میں
ان نکات اور ان سے متعلق امور کو قدرے تفصیل ووضاحت سے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
سماجی امور: اہل سیاست سے ربط وتعلق اور مثبت وتعمیری پیش رفت
(1)ملی قیادت کی ناکامی
مسلمانان ہند کا سنجیدہ طبقہ ہی نہیں سیاسی
ماہرین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ملک کی سیاست میں حالیہ تبدیلی کا اندازہ لگانے،
اس کے تدارک کے لئے تدبیر اختیار کرنے ، بہتر نتائج کی برآمدگی کے لئے لائحہ عمل مرتب
کرنے اور اس کے مطابق زمینی سطح پر جدوجہد کرنے میں مجموعی اعتبار سے ملی قیادت ناکام
رہی ہے۔ اس ناکامی کے بنیادی اور حقیقی اسباب کا پتہ لگایاجائے تاکہ مستقبل میں اس
طرح کی غلطیوں کے اعادہ سے بچاجاسکے۔ اس مرحلہ میں ان وجوہات کی تلاش سے گریز کرناچاہئے
جو خود کو اچھی لگتی ہوں یاجن کو عام مسلمانوں کی زبان بندی کے لئے استعمال کیاجاسکتا
ہو۔
(2)امکانات کی تلاش
ملک کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی رونما
ہوچکی ہے۔ ملک کا اقتدار ایک ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہے جسے پارلیمانی انتخابات میں
واضح کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح کی کامیابی کئی دہائیوں کے بعد دیکھنے میں آئی ہے۔
اب اس بات کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اسے حاصل ہونے والے ووٹوں کا تناسب کیا ہے اور
ان کے حصول کا طریقہ کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک جماعت اقتدار میں ہے اور حکومت کا
عوام سے بلاستثنا مذہب، ذات وقبائل راست تعلق ہوتا ہے، ایسے میں مسلمانان ہند کی اوّلین
ذمہ داری ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات میں سراسیمہ ہونے، کبیدہ خاطر ہونے کی جگہ عزم وحوصلہ
سے کام لیتے ہوئے امکانات کو تلاش کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اس سلسلے میں یہ امر لائق
توجہ ہوسکتا ہے کہ حکمراں جماعت آغاز سے ہی برملا یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ صحیح
معنوں میں مسلمانوں کی خیر خواہ ہے جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ووٹ بینک
کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں ، دوسری سیاسی جماعتوں کی طرف سے علامتاً ہی سہی جو
بھی کام ہوئے یا محض تسلی کے لئے جو بیانات دیئے گئے انہیں اس جماعت نے ”مسلم تشٹی
کرن“ کے نام سے تعبیر کیا، اب جب کہ بدلے ہوئے سیاسی حالات میں وہ خود حکمراں ہے تو
مسلمانوں کو اسے اس کی ان باتوں کو یاد دلانا چاہئے اور اس بات کے لئے آ مادہ کرنے
کی کوشش کرنی چاہئے کہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور بقول اس کے ان کو مین اسٹریم میں
لانے کے تعلق سے اگر اس کے پاس کوئی خاکہ یا منصوبہ ہے تو وہ اسے عوام کے سامنے پیش
کرے اور مسلم قیادت سے اس کے نکات ودیگر پہلووں پر گفت وشنید کرے۔
(3) سب کو ساتھ لے کر چلنے کے وعدے
کی یقین دہانی
حکومت نے اپنے آغاز کارمیں ہی ملک کے تمام
شہریوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بہت ہی واضح الفاظ میں کہی ہے۔ تسلسل کے ساتھ حکومت
کو اس کی طرف توجہ دلاتے رہنا ملک کے مسلمانوں کی اہم ذمہ داری ہے۔
(4) ملک کی شبیہہ
ہمارے ملک کی سیکولر اور جمہوری شبیہ بہت
واضح ہے۔ قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی وہ اپنی اس شبیہہ کی وجہ سے عزت وقدر
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خود بھی وہ اس شبیہہ کو نمایاں کرکے پیش کرتا ہے۔ اس
کی افادیت تسلیم شدہ ہے جسے تواتر کے ساتھ ملک کے عوام اور خود ارباب حکومت کے سامنے
پیش کیا جاناچاہئے تاکہ اہل سیاست بھی اس سلسلے میں خبردار رہیں اور عوام کی توجہ بھی
اسے حاصل رہے۔ اس ضمن میں خود حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم کی ان شخصیات کے
خیالات وبیانات کو بھی نمایاں کرکے پیش کیاجاسکتا ہے جو ملک کی مذکورہ شبیہہ کی تائید
کرتے ہیں۔
(5) دستور کی بالادستی
مسلمانان ہند کی طرف سے حکومت پر برابر
یہ زور دیاجانا چاہئے کہ حکمراں طبقہ دستور ہند کی بالادستی کو تسلیم کرے اور اس کے
مطابق نظام حکومت کو چلائے۔
(6) آئینی حقوق سے استفادہ
ہمارے ملک کے آئین نے تمام شہریوں کے حقوق
تسلیم کئے ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے استفادہ اور ان تک ہر شہری کی رسائی کو ممکن بنانے
کی طرف توجہ دینی چاہئے اور حکومت کو بھی اس کی طرف متوجہ کرناچاہئے۔
(7) بدعنوانی
بدعنوانی پارلیمانی انتخابی مہم کااہم حصہ
تھی۔ اس کی طرف سے غفلت برتنے یا اپنے پرائے کی سیاست کا شکار ہونے کی جگہ سنجیدگی
سے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے، اس تعلق سے بھی مسلمانوں کو بیدار رہنے کی ضرورت
ہے تاکہ حکومت کو اس کی طرف توجہ دلائی جاتی رہے۔
(8) اخلاقیات
ملک میں درآئی بے راہ روی، عریانیت اور اخلاقی ابتری اور ان کے مظاہرکے
خلاف سب سے پرزور انداز میںآواز حکمراں جماعت، اس کی سرپرست تنظیم، ذیلی و دیگر متعلقہ
تنظیموں اور اداروں کی طرف سے بلند ہوتی رہی ہے۔ بالعموم اس سلسلے کی تحریکات میں ان
کی طرف سے جارحیت وتشدد کا بھی سہارا لیاجاتا رہا ہے جس کی تائید مسلمانان ہند اور
دیگر ملک کے سنجیدہ طبقات کی طرف سے کبھی بھی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس طرح کے اقدامات
میں ان کا تعاون کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال اخلاقی بے راہ روی کے تعلق سے ان کی تشویش قابل
ستائش ہے۔ مسلمانان ہند کو اس مسئلہ پر ان سے ربط پیدا کرنا چاہئے اور اسے پرامن انداز
سے اٹھانے اور اسے حل کرنے میں ان کا تعاون کرناچاہئے۔ مسلمانوں کے پاس اخلاقیات کا
جو جامع نظام موجودہ ہے اسے حکمراں طبقہ کو متعارف کرانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے تاکہ
حسب موقع اس سے استفادہ کی کوئی راہ نکل سکے۔
(9) ملک کے مشترک اور دیگر پسماندہ
طبقات واقلیات کے ایشوز
مسلمانان ہند کے بارے میں ملک میں عمومیت
کے ساتھ یہ تصور پایاجاتاہے کہ وہ صرف اپنے ہی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور ان کی ساری
کوششیں صرف انہی تک محدود ہوتی ہیں۔ وہ ملک اور دیگر طبقات واقلیات کے مسائل میں دلچسپی
نہیں لیتے ہیں۔ یہ غلط نہیںہے۔ ملک کے دیگر پسماندہ طبقات واقلیات کے سلسلے میں مسلمانان
ہند کا عمومی طرز عمل یہ رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے یا مشترکہ مسائل میںانہیں
اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ اپنے علاوہ دوسروں کے مسائل کے سلسلے میں ان
کی طرف سے اس کوشش وجذبہ کا مظاہرہ نہیں ہوتا ہے جو درکار ہے۔ اس کی وجہ سے خاطر خواہ
نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ نہ صرف پسماندہ طبقات واقلیات بلکہ ملک
اور یہاں کے شہریوں کو درپیش جملہ مسائل کو حل کرنے، برائیوں کے خاتمہ اور کمیوں کو
دور کرنے کے لئے جو بھی کوششیں درکار ہوں مسلمانان ہند ان میں قائدانہ کردار اداکریں۔
اس سے نہ صرف محروموں اور مظلوموں کے درمیان عزت وقار میں اضافہ ہوگا بلکہ برادران
وطن کے ساتھ خوش گوار رشتے بھی استوار ہوں گے۔
فرقہ پرستی
ملک کااہم ترین مسئلہ فرقہ پرستی ہے جس
سے صرف مسلمانان ہند ہی نہیں تمام اقلیات دوچار ہیں بلکہ یہاں کے ہر پسماندہ طبقے کو
کہیں نہ کہیں اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ فرقہ پرست طبقہ اس ملک
کی سماجی تقسیم اور سیاسی سرپرستی کافائدہ اٹھا کر ایک طبقہ کو دوسرے کے خلاف استعمال
کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے فرقہ پرستی کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا سامنا سب سے زیادہ مسلمانان ہند کو کرنا پڑتا ہے۔ اس پس منظر
میں ذیل کے نکات پر توجہ دی جاسکتی ہے۔
(1)برادران وطن سے قربت
برادران وطن سے مسلمانان ہند کی قربت تو
دور ربط وتعلق کا عجب حال ہے۔ ان سے تجارتی روابط تورات ودن کے ہیں۔ ہر وقت ایک دوسرے
کے رابطہ میںرہتے ہیں۔ ملاقاتوں اور گفت وشنید کا طویل ترین دور چلتا ہے۔ یہ ربط شعوری
نہیں ضرورتاً ہے۔ اس کے بغیر ضروریات کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ مسلمانان ہند کا برادران
وطن سے ربط کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو انتہائی مایوس کن ہے، یہ ہے سماجی رشتہ جو
نفی کی حد تک محدود ہے۔ انتہاکا عالم یہ ہے کہ برسوں سے تجارتی روابط کے باوجود دونوں
قومیں ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہیں اور ایک دوسرے کے مزاج ، مذہب، عادات واطوار،
تصورات سے کلی طور پر نہ سہی بڑی حد تک لاعلم ہیں۔ ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں دیوار سے
دیوار ملی ہوتی ہے۔ لیکن دونوں کے درمیان اجنبیت اور لاعلمی کی گہری کھائی ہے۔ اس صورت
حال سے غلط فہمی کو راہ ملتی ہے اور فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ حالات اور ملی
فریضہ کا تقاضا ہے کہ برادران وطن سے قربت پیدا کی جائے اور ان سے سماجی رشتے استوار
کئے جائیں۔
(2) فرقہ وارانہ تشدد
فرقہ پرستی کایہ اہم ترین چہرہ ہے جو برادرانِ
وطن سے سماجی عدم تعلق اور باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ اس کا آغاز
بالعموم بہت ہی معمولی بات سے ہوتا ہے جو کبھی اتفاقیہ ہوتی ہے تو کبھی منصوبہ بند
ہوتی ہے۔ مثلاً گرمی کے موقع پر شاہراہ یا کسی عبادت گاہ کے قریب لوگوں کے پینے کے
لئے رکھے گئے پانی یا شربت کے برتن میں ہاتھ ڈال دینا، پانی خراب کردینا، کپڑوں میں
چھینٹ پڑجانا، گلی راستے میں گندی کا گرجانا، جلسے جلوس میں کسی کا پتھر پھینک دینا،
مسجد میں کسی گندگی کا پایاجانا، کچرا گھر میں قرآن مجید کے پھٹے ہوئے اوراق کاپایا
جانا وغیرہ یہ سب باتیں سنجیدگی کاتقاضا کرتی ہیں اور اکثر اوقات میں افہام وتفہیم
کے ذریعے مسئلہ پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ اگر مسلمانان ہند سنجیدگی کا ثبوت دیں اور وقتی
شرانگیزی یا نقصان کو نظر انداز کردیں تو اس صورت حال سے بچاجاسکتا ہے جس کا بار بار
مسلمانان ہند کو سامنا کرناپڑتا ہے۔ اسلام میں مومن کی شان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایک
سوراخ سے دوبار نہ ڈساجائے لیکن ہم مسلمانان ہند انگریزوں کے دور حکومت سے اب تک یعنی
تقریباً دوسو برس سے بھی زیادہ عرصے سے مسلسل لاکھوں بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے
کے باوجود اپنے جذبات پر قابو پانے اور ہوش کے ناخون لینے کو تیار نہیں ہیں۔
(3) پرامن تدابیر
مسلمانان ہند کو فرقہ پرستوں کی چالوں پر
نظر رکھنے کے ساتھ ہی پرامن تدابیر کو اختیار کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ اس سلسلے
میں برادران وطن کے سنجیدہ اور پرامن لوگوں کے ساتھ ایک مشترکہ لیکن متحرک پلیٹ فارم
بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔
(4) قانونی چارہ جوئی
مذکورہ نکات پر عمل اور احتیاطی تدابیر
اختیار کرنے کے باوجود پھر بھی کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو قصور وار
افراد کے ساتھ، اگر انتظامیہ کے بعض افراد بھی اس میں شامل ہوں تو ان سب کے خلاف قانونی
چارہ جوئی کی طرف فوری توجہ دی جائے تاکہ ایسے لوگوں کو ان کے کئے کی سزا دلائی جاسکے۔
(5) گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں
کی رہائی
پہلے سے گرفتار یاآئے دن گرفتارہونے والے
بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کی گرچہ ملی جماعتیں کوششیں کررہی ہیں لیکن ضرورت ان
کوششوں کو تیز کرنے کی ہے۔ ان کوششوں میں پائی جانے والی خامیوں، بروقت اقدامات اور
پیش رفت کے سلسلے میں رہاہو کرآنے والے بے قصور مسلم نوجوانوں کے تجربات سے استفادہ
بھی کیاجاسکتا ہے اور ان سے مشورہ بھی لیا جاسکتا ہے۔
(6) عزائم پر نظر
۸جون
کو ایک کتاب کے اجراء کے موقع پر وزیر اعظم کی طرف سے “کیسری انقلاب”''Saffron revolution"کے عزم کااظہار کیاگیا۔ پارلیمنٹ
میں اپنے پہلے خطاب میں ان کی طرف سے ایک ہزار سالہ غلامی کا ذکرآیا۔ اسی طرح صدر جمہوریہ
کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں ہونے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے ۱۱جون کو ایوان میں
انہوں نے کہا کہ ان کا ترقی کا ماڈل ہمہ جہت، سب کے لئے مفید، خالص ملکی، سب کے لئے
قابل قبول اور سب کے مفادات کا خیال رکھنے والا ہوگا جس میں“دو تین ہندوستان نہیں بلکہ
ایک ہندوستان نظر آئے گا جو زبان ، ذات، مذہب اور قوم میں تقسیم نہیں ہوگا اور اگر
کسی کو یہ ایک ہندوستان میں دو نظرآتے ہیں تو یہ اس کی ذہنی بیماری کا ہی نتیجہ ہوگا”۔
ان اشارات کو سمجھنے،اقدامات پر نگاہ رکھنے اور حسب ضرورت ملک کی جمہوری اور سیکولر
شبیہہ پر یقین رکھنے والے پر امن اور سنجیدہ شہریوں کو ساتھ لے کر اس کے تدارک کے لئے
تدبیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
خود احتسابی
حالات کی تبدیلی کا تقاضا ہے کہ مسلمانان
ہند اپنااحتساب کریں۔
(1) کمیوں وکوتاہیوں پر نظر
مسلمانان ہند کے اندر اس وقت بے شمار کمیاں
اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ بیشتر خامیوں کی خبر تو ہر مسلمان کو ہے اور اس کاحل بھی
اسے معلوم ہے لیکن غفلت اس پر اس قدر طاری ہے کہ لاکھ احساس دلانے کے بعد بھی وہ اصلاح
حال کے لئے تیار نہیں ہے۔ مسلمانوں کو پہلی فرست میں اپنی کمیوں وکوتاہیوں پر نظر ڈالنی
چاہئے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(2) حالات کی تبدیلی کا مثبت پہلو
حالات کی تبدیلی نے مجموعی طور پر پورے
ملک کے مسلمانوں کو حالات کو سمجھنے اور مستقبل کی تصویر کے سلسلے میں غور وفکر کرنے
پر مجبور کردیا ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ اس وقت مسلمانوں کے کان کھڑے ہیں اور وہ چوکنا
ہوکر ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ لیکن یہ کیفیت تادیر نہیں رہے گی۔ اس
سے پہلے کہ وہ بے فکر ہوکر عیش وعشرت کی وادیوں میں خوردونوش میں مصروف ہوجائیں۔ ان
کی اس وقتی بیداری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(3) ترقی کی رفتار
مسلمانان ہند ترقی کی راہ پر چل تو پڑے
ہیں لیکن ان کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اس کو تیز کرنے اور منصوبہ بند بنانے کی ضرورت
ہے۔
ملی فریضہ کی ادائیگی
اسلام نے اپنے پیروکاروں پر ایک اہم فریضہ
عائد کیا ہے۔ وہ لوگ جو ہدایت ربانی سے محروم ہیں، ان تک پیغام ربانی کو پہنچایا جائے۔
لیکن مسلمانان ہند نے جرم کی حد تک اس فریضہ کی ادائیگی سے غفلت برتی ہے۔ ملک کے بدلے
ہوئے حالات نے اس پہلو کو بھی متاثر کیاہے۔
(1) فریضہ سے غفلت کااحساس
مسلمانوں کی سنجیدہ اور بیدار ملی قیادت
کو اس فریضہ کی ادائیگی سے مسلمانان ہند کی عمومی غفلت کا احساس تو پہلے سے ہی تھا
اور اس طرف تسلسل کے ساتھ توجہ بھی دلائی جاتی رہی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس کی
طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ سیاسی حالات کی تبدیلی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملت کی
اس سنجیدہ قیادت نے نتائج کے اعلان کے فوراً بعد سب سے پہلے اس مسئلہ پر توجہ کی اور
یہ بتایا کہ موجودہ حالات اس غفلت کے نتیجے میں پیداہوئے ہیں۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی
ضرورت ہے۔
(2) فریضہ کی ادائیگی
یہ فریضہ اپنی ادائیگی میں سنجیدگی اختیار
کرنے اور اخلاص کے جذبہ کو فروغ دینے کا تقاضا کرتا ہے۔
(3) ربط وتعلق
یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس کی ادائیگی کی
طرف توجہ ابھی حال میں نہیں ہوئی ہے بلکہ طویل عرصہ سے خواہ جزوی ہی سہی لیکن یہ عمل
جاری ہے۔ مختلف حلقوں اور شخصیات کی طرف سے یہ کام انجام دیا جارہا ہے۔ اس فریضہ کی
ادائیگی کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کی انجام دہی میں مصروف شخصیات وقیادت کے مابین
ربط وتعلق ہو تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ کے مواقع فراہم ہوں اور کام کے لئے مزید راہیں
بھی تلاش کی جاسکیں۔
(4) افراد کی تربیت
فریضہ کی ادائیگی کے لئے دستیاب افراد کی
تربیت کا بھی نظم کیاجاناچاہئے۔ بغیر تربیت کے اس کام میں مصروف افراد سے مطلوبہ نتائج
برآمد نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ بسااوقات معاملات پیچیدہ بھی ہوجاتے ہیں۔
(5) ہدایت یافتگان پر توجہ
ملی قیادت نے اس فریضہ کی ادائیگی کے آغاز سے ہی حق کو قبول کرنے والوں
کی تعلیم ، تربیت اور مسائل کے حل کی طرف توجہ دی ہے۔ یہ ضروری بھی ہے۔ اس کے نتیجہ
میں ان کے قلوب کی تالیف کا سامان بھی فراہم ہوتا ہے اور نئے سرے سے سماجی زندگی کے
آغاز میں انہیں سہارا بھی ملتا ہے۔ حق قبول کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی
ہے جو جلد از جلد خود کفیل بن کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاتی ہے۔ انہیں میں ایک تعداد
وہ بھی ہوتی ہے جو اپنے مسائل تو حل کرتی ہی ہے دوسروں کا بھی سہارا بنتی ہے۔ سماجی
مسائل ،رفاہی کاموں اور اعانت میں ہر طرح سے حصہ لیتی ہے اور بڑھ چڑھ کر خرچ کرتی ہے۔
حق کو قبول کرنے والوں کی علمی، تحقیقی، دعوتی، تعلیمی اور رفاہی خدمات کا طویل سلسلہ
ہے جو ہر دور میں رہاہے اور اس وقت بھی جاری ہے۔ لیکن دادودہش، اعانت واستعانت کا ایک
سلسلہ وہ بھی ہے جو حق کو قبول کرنے والوں میں سے کچھ کو ہمیشہ کے لئے“بیچارہ” بنارہنے
اور “نو” کو اپنے نام کا اہم ترین جز بنا کر تازندگی مراعات حاصل کرنے کی ترغیب دیتا
ہے۔ کار دعوت میں مصروف ملی قیادت کو اس پہلو کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ
اس سے اجتناب کی کوئی راہ نکل سکے۔●●
(مضمون
نگار سینئر صحافی و سہ روزہ دعوت دہلی کے سب اڈیٹر ہیں )
Email:umairkoti@gmail.com
0 تبصرہ کریں:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔