حالات حاضرہ،تجزیے، تبصرے اور انٹر ویوز پر مبنی تحاریر

منگل، 26 مارچ، 2013

سنسنی خیزی ہندوستانی نیوز چینلوں کے لیے آکسیجن


بھارتی نیوز چینلوں کو اب یہ تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ سنسنی خیزی ان کے لئے آکسیجن ہو گئی ہے۔ سنسنی کے بغیر وہ ایک دم بے جان سے ہو جاتے ہیں، حالانکہ ایسے مواقع بہت ہی کم آتے ہیں جب کسی دن چینلوں کے پاس کوئی سنسنی خیز واقعہ، مسئلہ یا تنازع نہ ہو کیوں کہ وہ ایسے واقعات کو گڑھنے میں ماہر ہو گئے ہیں۔ وہ سنسنی کے احساس سے ہی چلتے ہیں اور اسی میں جیتے ہیں اور اسی میں پروان چڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سنسنی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ، نہ ملنے پر خود گڑھتے ہیں۔
چینلوں کی سنسنی خیزی کی تازہ مثال ملک کے عوام کو اس وقت دیکھنے کو ملی جب گزشتہ دنوں بھارتی ریاست حیدرآباد میں بم دھماکے ہوئے، دھماکے بعد نیوز چینلوں کی رپورٹوں کو ذرا دیکھئے، ایسا لگا جیسے وہ اسی کا انتظار کررہے تھے۔ موقع ملتے ہی ان کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا۔ بم دھماکے کی بریکنگ نیوز سے لے کر جائے حادثہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کو جس جلد بازی اور جذباتیت کے ساتھ پیش کیا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نیوز چینلوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھااور نہ ہی پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس کاٹجو کی ہدایات کا پاس و لحاظ کیا اور اس طرح ایک بار پھر ضبط و تحمل اور صحافت کے تحقیقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر خوب سنسنی پھیلانے کا کام کیا۔
حالانکہ دھماکے کی ذمہ دار دہشت گرد تنظیموں یا افراد کے بارے میں قیاس آرائی کے معاملے میں آغاز میں اپنے مزاج کے برعکس کئی نیوز چینلوں نے احتیاط برتی لیکن وہ بہت دیر تک صبر نہیں کرپائے اور ان کے بھی صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا۔ اگرچہ پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں نے فوری طور پر ان ریکارڈ اِس دھماکے لئے کسی تنظیم کا نام نہیں لیا لیکن چینلوں پر چوبیس گھنٹے کے اندر ہی ذمہ دار دہشت گرد تنظیم اور اس کے ماسٹر مائنڈ کا کھل کر ذکر ہونے لگا۔ یہی نہیں خفیہ اور تفتیشی ایجنسیوں کے حوالے سے ایک بار پھر ٹی وی چینل اور اخبارات میں دھماکے کے لئے انڈین مجاہدین اور ریاض بھٹکل، یاسین بھٹکل ان سے متعلق کئی مشتبہ افراد، پاکستان، لشکر طیبہ کو ذمہ دار ٹھہرانے والی غیرمصدقہ اور آدھی ادھوری رپورٹیں آنی شروع ہو گئیں۔ گویا سنسنی خیزی کاسلسلہ چل پڑا۔ چینلوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہوئی تو چینل اور اخبارات کے انویسٹی گیٹیو رپورٹروں نے خوب اسٹوریاں پلانٹ کیں جو اب بھی جاری ہیں۔
یہی وقت ہوتا ہے جب چینلوں اور اخبارات میں حقیقت نگاری اور فکشن کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا، یہاں تک کہ افواہیں بھی خبر بننے لگتی ہیں اور یہ غیرمصدقہ خبریں اشاروں و کنایوں میں پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیتی ہیں۔ ایک خاص کمیونٹی کی طرف اشارہ ہونے لگتا ہے۔ حیدرآباد دھماکوں کے بعد یہی ہوا، تفتیشی ایجنسیوں کے پاس بھلے ہی کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو لیکن چینلوں کی مدد سے وہ اس دھماکے کے مجرم طے کرچکی ہیں یہ اور بات ہے کہ اس سے قبل حیدرآباد ہی کے مکہ مسجد دھماکہ معاملے میں کئی بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور انہیں برسوں جیل میں بند رکھنے کا معاملہ ظاہر ہوچکا ہے جن کو بعد میں عدالت نے بے قصور قرار دے کر باعزت بری کرنے کا کام کیا۔ ان بے قصور نوجوانوں کو بھی اس طرح بم دھماکے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا جس طرح حالیہ بم دھماکوں کے بعد کچھ لوگوں کے بارے میں کیا جا رہا ہے۔
چینلوں کے تازہ رویے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ چینلوں نے مکہ مسجد دھماکے کے واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ یہی نہیں ایسی رپورٹنگ سے تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کو نہ صرف تفتیش کی خامیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے بلکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی صاف طورپر بچ نکلتی ہیں۔

یہ مضمون اردوٹاءمز امریکہ کے صفحات پر بھی دستیاب ہے 

http://www.urdutimes.com/content/45732

1 تبصرہ کریں:

Random Guy نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ عمدہ تحریر ہے۔۔۔
آپ نے حیدر آباد دھماکے کہ وقت کی رپورٹنگ کا ذکر کیا ہے اس وقت دہلی آبروریزی کیس سے متعلق نیوز چینلز جس طرح کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کر رہے ہیں اور ایک انتہائی سنجیدہ معاملے میں جس طرح " تھرل " پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔

آپ کا بلاگ ماشاءاللہ کافی مفید ہے اس بلاگ کو مزید خوبصورت بنانے اس میں خوبصورت نستعلیق فونٹ کا اضافہ کرنے میں میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔
آپ کا مخلص
سیف قاضی
بزم اردو ڈاٹ نیٹ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔