میرے عزیز ہم وطنو :
65
ویں یوم
جمہوریہ کے موقع پر میں ہندوستان اور پوری دنیا میں رہنے والے آپ سبھی لوگوں کو
دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔میں اپنی مسلح افواج ‘ نیم فوجی دستوں اور انٹرنل
سیکورٹی فورسیز کے ارکان کو بھی خصوصی مبارک باد دیتاہوں۔
ہرا یک
ہندوستانی یوم جمہوریہ کا احترام کرتا ہے۔ 64 برس قبل اسی روز ہم ہندوستان کے
لوگوں نے آدرش اور حوصلے کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے تمام شہریوں کے لئے انصاف‘
آزادی اور مساوات کو یقینی بنانے کے لئے خود کو ایک مقتدرجمہوری ری پبلک سونپی
تھی۔ہم نے تمام شہریوں کے درمیان بھائی چارہ‘ شخصی وقاراور قومی اتحاد کو فروغ
دینے کا کام اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ یہ آدرش جدید ہندوستانی مملکت کے مینارۂ نور
بنے۔امن کی راہ پر اور دہائیوں کے نوآبادیاتی نظام کے استحصال سے نکال کر احیاء
نوکی سمت میں لے جانے کے لئے جمہوریت ہماری سب سے گراں قدر رہنمابن گئی۔ ہمارے
آئین کی جامع توضیعات سے ہندوستان ایک خوبصورت ، متحرک اور کبھی کبھار پرشور
جمہوریت کی شکل میں ڈھل چکا ہے۔ہمارے لئے جمہوریت
کوئی تحفہ نہیں ہے بلکہ ہر ایک
شہری کا بنیادی حق ہے
جو صاحب اقتدار ہیں ان کے لئے ایک مقدس اعتمادہے اور جو اس
اعتماد کو توڑتے ہیں وہ قوم کی تذلیل کرتے ہیں۔
کچھ منفی
سوچ رکھنے والے جمہوریت کے تئیں ہماری وابستگی کا بھلے ہی مضحکہ اڑاتے ہیں لیکن
عوام نے کبھی بھی ہماری جمہوریت سے وشواس گھات نہیں کیا ہے ۔ اگر کہیں کوئی خامی
نظر آتی ہے تو یہ ان کی حرکت ہے جنہوں نے اقتدار کو اپنی حرص کی تکمیل کا ذریعہ
بنالیا ہے۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے جمہوری اداروں کو خود غرض اور نااہل لوگ
کمزور کررہے ہیں تو ہمیں غصہ آتا ہے اور یہ فطری ہے ۔ جب ہم کبھی سڑکوں پر مایوسی
کی آوازیں سنتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کاجو مقدس اعتماد تھا اسے توڑا جا
رہاہے۔
پیارے ہم وطنو
بدعنوانی
ایک ایسا کینسر ہے جو جمہوریت کو کمزور کرتا ہے اور ہمارے مملکت کی جڑوں کو
کھوکھلا کرتا ہے۔ اگر ہندوستان کے عوام برہم ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں
بدعنوانی اور قومی وسائل کی بربادی نظر آرہی ہے۔ اگر حکومتیں ان خامیوں کو دور
نہیں کرتیں تو رائے دہندگان حکومتوں کو اکھاڑ پھینکیں گے۔
اسی طرح
پبلک لائف میں ریاکاری کا بڑھنا بھی خطرناک ہے ۔ انتخابات کسی شخص کو گمراہ کن
تصورات کو آزمانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔جولوگ ووٹروں کا اعتماد چاہتے ہیں انہیں
وہی وعدہ کرناچاہئے جو ممکن ہے۔ حکومت کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے۔ایک ایسی نراجیت
جو محض عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ہو ‘ حکمرانی کا متبادل نہیں بن
سکتی۔جھوٹے وعدوں کا بھرم بہت جلد کھل جاتا ہے‘ جس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور ا س
کا ایک ہی نشانہ ہوتا ہے : حکمراں طبقہ۔
یہ غصہ اسی
وقت ٹھنڈا ہوگا جب سرکاریں وہ نتائج دیں گی جن کے لئے انہیں منتخب کیا گیا تھا
یعنی سماجی اور اقتصادی ترقی۔ یہ کچھوے کی چال سے نہیں بلکہ ریس کے گھوڑے کی رفتار
سے ہونی چاہئے ۔ پرعزم ہندوستانی نوجوان اپنے مستقبل سے وشواس گھات کو معاف نہیں
کریں گے۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں انہیں اپنے اور لوگوں کے درمیان اعتماد کے فقدان
کو دور کرنا ہوگا۔جو لوگ سیاست میں ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر ایک الیکشن کے
ساتھ ایک وارننگ بھی ہوتی ہے : کچھ کر دکھاو یا اپنا راستہ لو۔
میں یاسیت
پسند نہیں ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ جمہوریت میں خود کی اصلاح کرنے کی بے پناہ
صلاحیت ہے۔یہ ایسا معالج ہے جو اپنے زخموں کو بھر سکتا ہے اورپچھلے کچھ برسوں کی
منتشر اور متنازع سیاست کے بعد 2014 کو زخموں کے مندمل ہونے کا سال ہونا چاہئے۔
میرے عزیز ہم وطنو
پچھلی
دہائی میں ہندوستان دنیا کی ایک سب سے تیزرفتارترقی کرتی ہوئی معیشت کی شکل میں
ابھرا ہے۔ ہماری معیشت میں پچھلے دو برسوں میں آئی کساد بازاری کچھ تشویش کی بات
ہوسکتی ہے لیکن مایوسی کی بالکل نہیں۔ تجدید نو کی کونپلیں پھوٹنے لگی ہیں۔اس سال
کی پہلی ششماہی میں زرعی نمو کی شرح بڑھ کر 3.6فیصد تک پہونچ چکی ہے اور دیہی
معیشت حوصلہ افزاء ہے۔
سال 2014
ہماری تاریخ میں ایک آزمائش کا لمحہ ہے۔ ہمیں قومی مقاصد اورحب الوطنی کے
اس جذبے کو پھر سے بیدار کرنے کی ضرورت ہے جو ملک کو جمودسے نکال کر ترقی کی
شاہراہ پر گامزن کرسکے۔نوجوان کو روزگار دیں ، جو گاوں اور شہروں کو 21 ویں صدی کی
سطح پر لے آئیں گے۔ انہیں ایک موقع دیں اور آپ اس ہندوستان کو دیکھ کر حیران رہ
جائیں گے جس کی تعمیر کرنے کے صلاحیت ان نوجوانوں میں ہے۔اگر ہندوستان کو
مستحکم حکومت نہیں ملتی تو یہ موقع نہیں آپائے گا۔ اس سال لوک سبھا کے سولہویں عام
انتخابات ہوں گے۔ایک غیر مستحکم حکومت جو متلون مزاج موقع پرستوں پر منحصر ہو کوئی اچھی
صورت نہیں ہے۔اگر 2014میں ایسا ہو ا تو یہ تباہ کن ہوگا۔ہم میں سے ہرایک رائے
دہندہ ہے‘ ہم میں سے ہر ایک پر بھاری ذمہ داری ہے۔ ہم ہندوستان کو مایوس نہیں
کرسکتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں اور عملی قدم اٹھائیں۔
ہندوستان
صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں ہے ‘ یہ نظریات ‘ فلسفہ ‘ دانشوری ‘ صنعتی عبقریت ‘
دستکاری ‘ اختراعات اور تجربات کا ایک تاریخ بھی ہے۔ہندوستان کی قسمت کو بعض اوقات
بدقسمتی نے دھوکہ دیا اور کبھی خود ہماری اپنی بے فکری اور کمزوری نے۔قدر ت نے
ہمیں ایک بار پھر سے وہ حاصل کرنے کا موقع دیا ہے جو ہم گنوا چکے ہیں ‘ اگرہم اس
موقع سے چوک جاتے ہیں تو اس کے لئے ہم خود ہی قصوروار ہوں گے کوئی اور نہیں۔
عزیز ہم وطنو
ایک جمہوری
ملک ہمیشہ اپنے آپ سے استدلال کرتا ہے۔ یہ خوش آئند ہے کیوں کہ ہم مسائل کو طاقت
سے نہیں بلکہ تبادلہ خیال اور افہام و تفہیم کے ذریعہ ہی حل کرسکتے ہیں ۔لیکن
خیالات کا یہ صحت مند اختلاف ہماری سیاسی نظم کے اندر غیر صحت مند ٹکراو میں تبدیل
نہیں ہونا چاہئے۔اس بات پر شدت جذبات میں اضافہ ہورہا ہے کہ کیا ہمیں ریاست کے
تمام حصوں تک مساوی ترقی پہونچانے کے لئے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنانی چاہئے۔اس پر
بحث تو درست ہے لیکن یہ بحث جمہوری پیمانوں کے مطابق ہونی چاہے۔پھوٹ ڈالو اور
حکومت کرو کی سیاست سے ہمار ے برصغیر کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔اگر ہم متحد ہوکر
کام نہیں کریں گی تو کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔
ہندوستان
کو اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہوگا ۔ہمیں ہر طرح کے علم کا خیرمقدم کرنا
چاہئے ‘ اگرہم ایسا نہیں کرتے ہیں تویہ اپنے ملک کو گہری دلدل کے درمیان بھٹکنے کے
لئے چھوڑ دینے کے مترادف ہوگا۔البتہ ہمیں آنکھ موند کر نقل کرنے کا آسان متبادل
نہیں اپنا نا چاہے کیوں کہ یہ ہمیں بھول بھلیوّں میں ڈال سکتا ہے۔ ہندوستان کے پاس
شاندار مستقبل کی تعمیر کے لئے دانشورانہ مہارت‘ انسانی وسائل اور مالی سرمایہ
موجودہے ۔ ہمارے پاس ایک ڈائنامک سول سوسائٹی ہے جو اختراعی ذہنیت سے مالا مال ہے۔
ہمارے عوام خواہ گاوں میں رہتے ہوں یا شہروں میں‘ ایک پرجوش اور
غیر معمولی بیداری اور کلچر سے جڑے ہیں۔ افراد ہمارا سب سے
بہترین اثاثہ ہیں۔
عزیز ہم وطنو
تعلیم
ہندوستانی تجربہ کا ناقابل تنسیخ حصہ رہا ہے۔میں صرف تکشیلا یا نالندہ جیسے قدیم
اعلی میعاری اداروں کی بارے میں بات نہیں کررہا ہوں بلکہ سترہویں اور اٹھارہویں
صدی کی بھی بات کررہا ہوں۔آج ہمارا اعلی تعلیمی ڈھانچہ 650سے زائد یونیورسٹیوں اور
33 ہزار سے زائد کالجوں پر مشتمل ہے۔اب ہماری توجہ تعلیم کے میعار پر ہونی چاہئے۔
ہم تعلیم کے شعبہ میں دنیا کی قیادت کرسکتے ہیں ‘ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم
تعلیم کو نقطۂ کمال تک لے جانے والی اپنی قوت ارادی اور قائدانہ صلاحیت کو پہچان
لیں ۔تعلیم اب صرف طبقہ اشرافیہ کی جاگیر نہیں ہے بلکہ اس پر سب کا حق ہے۔یہ کسی
قوم کی قسمت کی بنیاد ہے۔ہمیں ایک ایسا تعلیمی انقلاب شروع کرنا ہوگا جو قومی
تجدید نو کے آغاز کا ذریعہ بن سکے۔
میں جب یہ
دعوی کرتا ہوں کہ ہندوستان دنیا کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے تو میں نہ تو بے جا
دعوی کررہا ہوں اور نہ ہی جھوٹی تعریف کررہا ہوں۔کیوں کہ مشہور دانشور رابندناتھ
ٹیگور کے بقول انسانی ذہن اسی وقت بہتر ڈھنگ سے ترقی کرتا ہے جب وہ خوف سے آزاد ہو
‘ جب اسے معرفت کی تلاش میں نامعلوم جہانوں کی سیر کرنے کی پوری آزادی ہو اور جب
لوگوں کو اپنی بات رکھنے اور اختلاف کرنے کا بھی بنیادی حق حاصل ہو۔
میرے ہم وطنو
اگلی مرتبہ
میں جب یوم آزادی کے موقع پر آپ سے خطاب کروں گا، اس سے پہلے نئی حکومت بن چکی
ہوگی۔ آنے والے الیکشن میں کون کامیاب ہوتا ہے یہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا یہ حقیقت
کہ خواہ جسے بھی کامیابی حاصل ہو اس میں استحکام ، ایمانداری اورہندوستان کی ترقی
کے تئیں غیر متزلزل عہد بندی ہونی چاہئے۔ ہمارے مسائل راتوں رات ختم نہیں ہوں گے ۔
ہم دنیا کے ایک ایسے ہنگامہ خیزخطے میں رہتے ہیں جہاں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران عدم
استحکام پیدا کرنے والے عناصر میں اضافہ ہوا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتیں اوردہشت گرداب
بھی ہمارے عوام کے مابین خیرسگالی اورہمارے ملک کی
سا لمیت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن وہ کبھی
کامیاب نہیں ہوں گے۔ہماری سیکورٹی اور مسلح افواج نے عوام کی مضبوط تائید سے یہ
ثابت کردیا ہے کہ وہ اندر کے دشمنوں کو بھی اسی سختی سے کچل سکتی ہیں جیسے وہ
ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ایسے شیخی بگھارنے والے جوہماری مسلح افواج کی
ایمانداری پرشبہ کرتے ہیں ،نہ صرف غیر ذمہ دار ہیں بلکہ عوامی زندگی میں ان کے لئے
کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔
ہندوستان
کی حقیقی قوت پنہا ں ہے اس کی جمہوریت میں،اس کے قول و قرار کی جرأت میں ، اس کے
آئین کی وسعت میں اور اس کے عوام کی حب الوطنی میں۔ 1950میں ہماری جمہوریت کا جنم
ہوا تھا مجھے امید ہے کہ2014 اس کے احیاء نو کا سال ہوگا۔
شکریہ
جے ہند!
***
Translated from English by Javed Akhtar,UNI for All India Radio, External Services Division
1 تبصرہ کریں:
بہترین ترجمہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔